کابل: پیر 9 نومبر کا دن افغانستان میں ایک اور تاریخ رقم کرنے جارہا ہے جب اس روز دوفراد ایک منصب کا حلف اٹھائیں گے۔ ایسا ہوگا یا نہیں لیکن اب تک کی صورت حال یہی ہے۔ حکومت افغانستان کی طرف سے اعلان کیے گئے پروگرام کے مطابق پیر کی صبح نومنتخب افغان صدر حلف اٹھائیں گے۔ افغان الیکشن کمیشن چوں کہ اشرف غنی کو منتخب صدر قرار دے چکے ہیں، اس لیے عمومی خیال تو یہی ہے اس روز وہی صدارتی محل میں اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے لیکن صدارتی انتخاب میں دوسرے نمبر پر رہنے والے امیدوار عبداللہ عبداللہ نے دعویٰ کیا ہے وہ بھی اسی روز ملک کی صدارت کا حلف اٹھائیں گے۔ عبداللہ اللہ نے دعویٰ کیا ہے ملک کے منتخب صدر وہی ہیں کیوں کہ گزشتہ صدارتی انتخاب میں سب سے زیادہ ووٹ ان ہی نے

حاصل کیے تھے۔
عبداللہ عبداللہ الزام لگاتے ہیں کہ ان انتخابات میں اشرف غنی ناکام رہے ہیں۔ ان کے قریبی حلقے یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ اشرف غنی نے اپنی کامیابی کا اعلان الیکشن کمیشن ہر دباوڈال کر اس کے باوجود کرایا ہے کہ وہ انتخابی قوانین کے مطابق پچاس فیصد سے زاید ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
ہفتے کی شام تک منصب صدارت کا حلف اٹھانے کے دعوے دار دونوں رہنماوں کی طرف سے کسی لچک کا مظاہرہ نہیں ہوا تھا۔ اس لیے افغانستان ہی نہیں بلکہ خطے کے دیگر اسٹیک ہولڈروں میں اس سلسلے میں تشویش پائی جاتی ہے کہ کیا یہ صورت حال گزشتہ چار دہائیوں سے خانہ جنگی کے شکار ملک کو ایک نئی جنگ میں دھکیل دے گی یا کوئی درمیانی راستہ نکل پائے گا؟ اس سوال کا کوئی واضح جواب تاحال دست یاب نہیں ہے لیکن توقع کی جاتی ہے کہ عبداللہ عبداللہ کی طرف سے حلف اٹھانے کا اعلان اشرف غنی پر دباو ڈالنے کی ایک کوشش ہے تاکہ وہ انھیں گزشتہ دور کے مقابلے میں زیادہ بہتر شرائط کے ساتھ شریک اقتدار کریں۔ فریقین کے درمیان فی الحال بالواسطہ طور پر روابط جاری ہیں۔