امریکا طالبان معاہدہ ایک ہفتہ بھی نہیں دیکھا پایا اور جنگ بندی کی خلاف ورزی شروع ہوگئی۔ان حملوں میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق بیس افغان اہل کار ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ حملے افغان صدر اشرف غنی کے اس متنازع بیان کے بعد شروع ہوئے کہ وہ طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کرنے کے پابند نہیں ہیں۔ اس بیان کے بعد طالبان نے ملک کے مختلف حصوں میں حملے شروع کردیے۔ ان حملوں میں صوبہ قندوز میں 20 اہل کار ہلاک اور درجنوں زخمی ہوچکے ہیں طالبان نے دس اہل کاروں کو یرغمال بنانے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ ان حملوں کے جواب میں امریکی فوج نے طالبان کے ٹھکانوں کو بم باری کی جس سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔
اس طرح ایک بیان کی وجہ سے فریقین کے درمیان جنگ بندی ختم ہوگئی ہے اور افغانستان ایک بار پھر جنگ کی آگ میں دھنس گیا ہے۔ امریکا نے اپنے حملوں کو طالبان کے حملوں کے ردعمل اور جوابی کارروائی قرار دیتے ہوئے اپیل کی ہےکہ طالبان جنگ بندی معاہدے پر عمل کریں۔
دنیا نے طالبان امریکا امن معاہدے پر سکھ کا سانس لیا تھا اور اسے عالمی امن اور استحکام کی طرف ایک بڑا قدم سمجھا گیا تھا لیکن افغانستان میں صدر اشرف غنی کے بیان سے پیدا ہونے والی صورت حآل کی وجہ سے تشویش پیدا ہوگئی ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس سلسلے پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ آف پاکستان میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ کابل کو کسی وہم میں پڑے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ خطے کے ممالک خاص طور پر پاکستان اور ایران علاقے میں داعش جیسی تنظیموں کو پھلتا پھولتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے۔ انھوں نے افغانستان کو بھارت کے عزائم سے بھی خبردار رہنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اس ملک کا افغانستان کی سلامتی اور تحفظ کے سلسلے میں کوئی کردار نہیں ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ تمام متعلقہ فریق صورت حآل کا فوری نٹس لے کر افغانستان میں بھڑکتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں گے۔