ADVERTISEMENT
بہت دنوں کے بعد اسلام آباد میں ایک ایسا اجتماع ہوا ہے جس میں شاعر ادیب اور سیاست داں ایک جگہ اکٹھے ہوئے اور انھوں نے کسی تکلف اور لاگ لپیٹ کے بغیر دل کی باتیں کہیں۔ یہ موقع طاہر حنفی کے دوسرے شعری مجموعے گونگی ہجرت کی تقریب پزیرائی نے فراہم کیا۔ یوں اسلام آباد میں ادبی وثقافتی تنظیمیں بہت ہیں اور وہ وقتاً فوقتاً جمع ہونے کے مواقع نکالتی رہتی ہیں لیکن اشارہ نسبتاً مختلف پلیٹ فارم ہے جس کے منتظمین یعنی جنید آزر، اطہر ضیا اور شہباز چوہان اور دیگر دوست کسی ستائش اور صلے کی تمنا کے بغیر ادب کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔ اس تنظیم کے مشاعرے تو خاص طور پر شہرت رکھتے ہیں۔
اسی رویات کو برقرار رکھتے ہوئے اشارہ نے گزشتہ دنوں طاہر حنفی کے دوسرے شعری مجموعے گونگی ہجرت کے پاکستان میں اجرا کا اہتمام کیا ۔ تقریب کے مہمان خصوصی صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان تھے ۔ دیگر مقررین میں جبار مرزا، علی اکبر
عباس، ڈاکٹر احسان اکبر ، محمودہ غازیہ اور ان کے دیگر احباب شامل تھے۔

سردار مسعود خان کشمیری الاصل ہیں لیکن وہ اردو بولیں یا انگریزی ، انھیں سنتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ بات علاقائی شناختوں سے کہیں بلند ہو گئی ہے۔ طاہر حنفی کی تقریب میں تو معاملہ اس سے بھی آگے جا پہنچا اور یہ انکشاف ہوا کہ مسعود خاں محض سفارت کار نہیں اور عہد موجود کے سیاست داں نہیں بلکہ ایک حساس شاعر بھی ہیں۔انھوں نے اپنی گفتگو میں جہاں طاہر حنفی کی شاعری کی مختف جہتوں پر گفتگو کی اور شاعر کے ذہن میں پنپنے والے خیالات کا حقیقی زندگی سے کا میاب سراغ لگا کر بتایا کہ طاہر حنفی اپنی تمام تر فن کاری کے باوجود ایک ایسا شاعر ہے ، مقصد جس کی زندگی میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں طاہر کے بہت سے ایسے اشعار کا حوالہ بھی دیا جو ہر اعتبار سے المیہ کشمیر کی بہترین نمائندگی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی انکشاف ہوا کہ وہ خود بھی ایک حساس شاعر ہیں۔ اس تقریب میں انھوں نے کشمیر کی صورت حال ہی کے بارے میں اپنی دو نظمیں بھی پیش کیں۔سردار مسعود خان نے اس موقع پر اپنی گفتگو میں مزید کہا کہ ادیب اور شاعر چوں کہ تخلیقی ذہن رکھتے ہیں ،اس لیے انھیں چاہئے کہ وہ کشمیر کی صورت حال پر توجہ دیں کیوں کہ ان کے قلم سے نکلا ہوا پیغام دیگر فورموں سے آنے والے پیغامات کے مقابلے میں زیادہ وزن رکھتا ہے۔
یہ تقریب بعض احباب، خاص طور جبار مرزا کے مضمون کی وجہ سے ادبی تقریب کے علاوہ ایک ایسی محفل دوستاں کی کیفیت بھی اختیار کر گئی جس میں ماضی کو یاد گیا اور ان زمانوں کی بھلی باتوں کو دہرایا گیا جس سے پتہ چلا کہ وہ کون سے حالات ہوتے ہیں جو طاہر حنفی جیسے صحافی نیز پارلیمانی امور کو سلجھانے میں زندگی گزار دینے والے طاہر حنفی کو ایک حساس شاعر بنا دیتے ہیں۔