محمد سلیم جاوید
ایسوسی ایٹ پروفیسر گورنمنٹ جناح اسلامیہ کالج، سیالکوٹ
بہت ہی دلکشی ہے تحریر میں، اور روانی اور سلیس اردو میں افسانہ لکھنے کی کوشش کی گئی ہے. معاشرے کے سلگتے مسائل کی نشاندہی کرکے افسانہ نگار نے اپنی تیز نگاہوں کا ثبوت دیا ہے. مصنفہ کی نگاہ میں معاشرے میں بکھری ہوئی آپس کی ناراضی اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد سے کیسے کیسے اندوہناک واقعات رونما ہوتے ہیں.
لیکن افسانہ نگار نے افسانوں کے عنوانات میں منفی پہلو کو زیادہ نمایاں کیا ہے. شک، غلط فہمی، دھوکا جیسے عنوانات میں زندگی کے مثبت پہلو کو نظر انداز کردیا گیا ہے. آپس میں بڑھتی ہوئی دوری اور حسد اور نفرت بڑے حادثات کا باعث بنتے ہیں.
یہ بھی پڑھئے:
سلیم احمد مرحوم کی وہ نعت جو اہل دل کو تڑپا دیتی ہے
اور پھر دوسروں سے بہت زیادہ امیدیں انسان کی عزت نفس مجروح کردیتی ہیں. مصنفہ نے خاص طور پر اپنے افسانے دھوکا میں آج کی نئی نسل کی ترجمانی کی ہے کہ کس طرح اعتماد کا خون کیا جاتا ہے. اس لیے ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا چاہیے، غرض افسانہ نگار نے اپنی کوشش میں افسانے کو نئے رنگ سے آشنا کیا ہے.
خصوصاً افسانے کے برجستہ جملوں نے دلکشی پیدا کی ہے. جس کی وجہ سے ان کے افسانوں کو شاہکار افسانے کہا جاسکتا ہے. میری نظر میں ان کی اس کوشش کو زیادہ سے زیادہ سراہا جائے. تاکہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوسکے. جو بھی ان افسانوں کو کھلے دل اور کھلے ذہن سے پڑھے گا وہ مصنفہ کی الفاظ پر گرفت اور ماحول کو بہت اچھے انداز میں پیش کرنے میں پسند کرے گا. میری دعا ہے کہ افسانہ نگار اپنی کوشش میں مزید کامیاب ہو. اور اردو کو ایک اچھا افسانہ نگار ملنے پر مبارک باد دیتا ہوں.