یاد محمد رسول اللہ اس کثرت سے اور ایسے انداز میں کیا جائے کہ ان کا قلب نبوت کے مختلف پہلوؤں کا خود مظہر ہو جائے
زمانہ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے۔ انسانوں کی طبائع، ان کے افکار اور ان کے نقطہء ہائے نظر زمانے کے ساتھ ہی بدلتے رہتے ہیں لہٰذا تہواروں کے منانے کے طریقے اور مراسم بھی ہمیشہ متغیر ہوتے رہتے ہیں اور ان سے استفاد کے طریق بھی بدلتے رہتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے مقدس مراسم پر غور کریں اور افکار کے تغیرات سے ہونی لازم ہیں، ان کو مدنظر رکھیں۔
منجملہ ان مقدس ایام کے جو مسلمانوں کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں، ایک عید میلادالنبی کا دن بھی ہے۔ میرے نزدیک انسانوں کی دماغی ذہنی تربیت کے لیے نہایت ضروری ہے کہ ان کے عقیدے کی رو سے زندگی کا جو نمونہ بہترین ہو، وہ ہر وقت ان کے سامنے رہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے لیے اسی وجہ سے ضروری ہے کہ وہ اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ اسوہ رسول کو مد نظر رکھیں تاکہ جذبہ تقلید اور جذبہ عمل قائم رہے۔ان جذبات کو قائم رکھنے کے تین طریقے ہیں:
پہلا طریقہ تو درود و صلوٰۃ ہے جو مسلمانوں کی زندگی کا جزو لا ینفک ہو چکا ہے۔ وہ ہر وقت درود پڑھنے کے طریقے نکالتے ہیں۔ عرب کے متعلق میں نے زنا ہے کہ اگر دو آدمی لڑ پڑتے ہیں اور تیسرا آدمی بآواز بلند اللہم صل علی سیدنا محمد بآواز بلند پڑھ دیتا ہے تو لڑائی فوراً رک جاتی ہے اور مخالفین ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھانے سے فورآ باز آ جاتے ہیں۔ یہ درود کا اثر ہے اور لازم ہے کہ جس پر درود پڑھا جائے، اس کی یاد قلوب کے اندر اثر پیدا کرے۔
یہ بھی پڑھئے:
سیرت رسول اللہ ﷺ کا پیغام عمران خان کے نام
خان آف قلات: رسوائی سے سرخروئی تک
کشمیر کا دکھ’ غلام نبی شاہد کے افسانوں میں
پہلا طریقہ انفرادی ہے۔ دوسرا طریقہ اجتماعی ہے یعنی مسلمان کثیر تعداد میں جمع ہوں اور ایک شخص کو حضور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح سے پوری طرح باخبر ہو، آپ کے سوانح بیان کرے تاکہ ان کی تقلید کا ذوق و شوق مسلمانوں کے قلوب میں پیدا ہو۔ اس طریق عمل پر عمل پیرا ہونے کے لیے ہم سب آج یہاں جمع ہوئے ہیں
تیسرا طریقہ اگرچہ مشکل ہے لیکن بہرحال اس کا بیان کرنا نہایت ضروری ہے ۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ یاد رسول اس کثرت سے اور ایسے انداز میں کیا جائے کہ ان کا قلب نبوت کے مختلف پہلوؤں کا خود مظہر ہو جائے۔ یعنی آج سے تیرہ سو سال قبل جو کیفیت حضور سرور کائنات کے وجود سے ہویدا تھی، وہ آج تمھارے قلوب میں پیدا ہو جائے۔ حضرت مولانا روم فرماتے ہیں:
آدمی دید است، باقی پوست است
دید آں باشد کہ دیدِ دوست است
یہ جوہر انسان کا انتہائی کمال ہے کہ اسے دوست کے سوا کسی اور چیز کی دید سے مطلب نہ رہے۔ یہ طریقہ بہت مشکل ہے ۔ کتابوں کے پڑھنے یا میری تقریر سننے سے نہیں آئے گا۔ اس کے لیے کچھ مدت نیکوں اور بزرگوں کی صحبت میں بیٹھ کر روحانی انوار حاصل کرنا ضروری ہے۔ اگر یہ میسر نہ ہو تو پھر ہمارے لیے یہی طریقہ غنیمت ہے جس پر آج عمل پیرا ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اس طریق پر عمل کرنے کے لیے کہا کیا جائے۔ پچاس سال سے شور برپا ہے کہ مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنی چاہیے لیکن جہاں تک میں نے غور کیا ہے تعلیم سے زیادہ قوم کی تربیت کی ضرورت ہے اور ملک اعتبار سے یہ تربیت علما کے ذمے ہے۔