Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
بیگم سرینا عیسیٰ کیس: سپریم کورٹ کے فیصلے سے بیرسٹر فروغ نسیم پریشان کیوں ہیں؟ یہ جاننے کے لیے تھوڑا پس منظر میں جانے کی ضرورت ہوگی۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران میں اعلیٰ عدلیہ کے بعض ججوں نے ایک خاص نکتہ نظر کے تحت فیصلے دیے۔ ان فیصلوں سے موجودہ حکمرانوں کو سیاسی فائدہ پہنچا۔ ججوں کے اس خاص گروہ کی نمائندگی ثاقب نثار اور چند دیگر جج کرتے ہیں۔ خود عدلیہ میں یہ احساس موجود تھا کہ مذکورہ ججوں کا طرز عمل انصاف ہے منافی ہے۔ یہ بھی محسوس کیا جاتا تھا کہ ان ججوں کا یہ طرز عمل انصاف کے اعلی ترین ادارے کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ چناں چہ عدالت عظمیٰ کے کچھ ججوں سے اس طرز عمل کے متوازی راستہ اختیار کیا اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلے دیے۔ ایسے ججوں میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نمایاں ترین تھے۔ لہٰذا انھیں سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
سرینا عیسیٰ کیس کے بارے میں یہ بھی پڑھئے:
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ اس ریفرنس میں بیگم سرینا عیسیٰ کی جائیداد کو بنیاد بنایا گیا۔
دعویٰ کیا گیا کہ بیگم سرینا عیسیٰ کے اثاثے جج صاحب نے ڈیکلیئر نہیں کیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف یہی ریفرنس تھا۔ یہ ریفرنس سپریم کورٹ نے بہت پہلے مسترد ہو گیا تھا کیونکہ اس کی کوئی قانونی بنیاد نہیں تھی۔ اس کے باوجود حکومت ان فیصلوں کے خلاف یکے بعد دیگرے نظر ثانی میں جاتی رہی۔
دو روز قبل سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے اسی نظرثانی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف سب سے زیادہ بے چینی وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے ظاہر کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ اس فیصلے میں تضادات ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر جج اپنے خاندان کے اثاثوں کا زمہ دار نہیں ہے تو پھر سیاست دان کیسے ہو سکتا ہے؟
بیرسٹر فروغ نسیم کا یہ بیان بظاہر منطقی دکھائی دیتا ہے لیکن یہ ایک جرم کو چھپانے کی کوشش ہے۔ یہ ایک ایسا جرم ہے جسے سپرم کورٹ کورٹ کے جج جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے نوٹ میں واضح کیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
کراچی میں ایم کیو ایم کی انٹری کے پیچھے چھپے اصل راز
تیس جنوری: علامہ تاج ور نجیب آبادی کی آج برسی ہے
جماعت اسلامی کی کراچی میں نشاۃ ثانیہ ہوگئی؟
انھوں نے لکھا ہے کہ ریفرنس بنانے کے لیے انکم ٹیکس قوانین کی مجرمانہ خلاف ورزی کی گئی۔ واضح رہے کہ کسی بھی شہری کے انکم ٹیکس کی تفصیلات صیغہ راز میں ہوتی ہیں۔ ریاست انھیں ظاہر کر سکتی ہے اور انھیں کسی کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کیس میں بیگم سرینا عیسیٰ کے انکم ٹیکس کی دستاویزات تک خلاف قانون رسائی حاصل کی گئی۔ حاصل شدہ دستاویزات کو ریفرنس بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس جرم کی سزا سے بچنے کے لیے حکومت نے ایک قانون جاری کیا جسے موثر بہ ماضی رکھا گیا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اضافی نوٹ میں اسی جانب اشارہ کیا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ بیرسٹر فروغ نسیم اور بیرسٹر شہزاد اکبر اس کام میں ملوث تھے۔ حکومت کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے عمران خان کی انھیں آشیر باد بھی حاصل رہی۔
آرڈیننس میں ترمیم چیلنج ہو سکتی ہے
ممتاز ماہر آئین ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کے مطابق اس کیس میں چند روز پہلے شائع ہونے والا بیگم سرینا عیسیٰ کا خط خاص اہمیت رکھتا ہے۔ یہ خط انکم ٹیکس آرڈینینس کی ترمیم کے بعد شائع ہوا تھا۔ اس ترمیم کے ذریعے انکم ٹیکس کے ریکارڈ تک غیر قانونی رسائی اور ان سے حاصل کردہ معلومات کے استعمال پر تبصرہ کیا گیا تھا۔ اسی خط کے بعد بیرسٹر شہزاد اکبر مستعفی ہوئے تھے۔ انکم ٹیکس آرڈینینس میں ترمیم آنے والے دنوں میں اہمیت اختیار کر سکتی ہے۔ امکان یہ ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کے اس نوٹ کی بنیاد پر اسے چیلنج بھی کیا جاسکتا ہے۔
بیرسٹر فروغ نسیم اور حکومت کے دیگر ذمہ داروں کی تلملاہٹ کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ اسی لیے قانونی حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ فیصلہ حکومت کے لیے بہت سے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ اس فیصلے کے اثرات شہزاد اکبر اور فروغ نسیم سے ہوتے ہوئے عمران خان تک پہنچ سکتے ہیں۔
بیگم سرینا عیسیٰ کیس: سپریم کورٹ کے فیصلے سے بیرسٹر فروغ نسیم پریشان کیوں ہیں؟ یہ جاننے کے لیے تھوڑا پس منظر میں جانے کی ضرورت ہوگی۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران میں اعلیٰ عدلیہ کے بعض ججوں نے ایک خاص نکتہ نظر کے تحت فیصلے دیے۔ ان فیصلوں سے موجودہ حکمرانوں کو سیاسی فائدہ پہنچا۔ ججوں کے اس خاص گروہ کی نمائندگی ثاقب نثار اور چند دیگر جج کرتے ہیں۔ خود عدلیہ میں یہ احساس موجود تھا کہ مذکورہ ججوں کا طرز عمل انصاف ہے منافی ہے۔ یہ بھی محسوس کیا جاتا تھا کہ ان ججوں کا یہ طرز عمل انصاف کے اعلی ترین ادارے کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ چناں چہ عدالت عظمیٰ کے کچھ ججوں سے اس طرز عمل کے متوازی راستہ اختیار کیا اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلے دیے۔ ایسے ججوں میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نمایاں ترین تھے۔ لہٰذا انھیں سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
سرینا عیسیٰ کیس کے بارے میں یہ بھی پڑھئے:
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ اس ریفرنس میں بیگم سرینا عیسیٰ کی جائیداد کو بنیاد بنایا گیا۔
دعویٰ کیا گیا کہ بیگم سرینا عیسیٰ کے اثاثے جج صاحب نے ڈیکلیئر نہیں کیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف یہی ریفرنس تھا۔ یہ ریفرنس سپریم کورٹ نے بہت پہلے مسترد ہو گیا تھا کیونکہ اس کی کوئی قانونی بنیاد نہیں تھی۔ اس کے باوجود حکومت ان فیصلوں کے خلاف یکے بعد دیگرے نظر ثانی میں جاتی رہی۔
دو روز قبل سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے اسی نظرثانی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف سب سے زیادہ بے چینی وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے ظاہر کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ اس فیصلے میں تضادات ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر جج اپنے خاندان کے اثاثوں کا زمہ دار نہیں ہے تو پھر سیاست دان کیسے ہو سکتا ہے؟
بیرسٹر فروغ نسیم کا یہ بیان بظاہر منطقی دکھائی دیتا ہے لیکن یہ ایک جرم کو چھپانے کی کوشش ہے۔ یہ ایک ایسا جرم ہے جسے سپرم کورٹ کورٹ کے جج جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے نوٹ میں واضح کیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
کراچی میں ایم کیو ایم کی انٹری کے پیچھے چھپے اصل راز
تیس جنوری: علامہ تاج ور نجیب آبادی کی آج برسی ہے
جماعت اسلامی کی کراچی میں نشاۃ ثانیہ ہوگئی؟
انھوں نے لکھا ہے کہ ریفرنس بنانے کے لیے انکم ٹیکس قوانین کی مجرمانہ خلاف ورزی کی گئی۔ واضح رہے کہ کسی بھی شہری کے انکم ٹیکس کی تفصیلات صیغہ راز میں ہوتی ہیں۔ ریاست انھیں ظاہر کر سکتی ہے اور انھیں کسی کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کیس میں بیگم سرینا عیسیٰ کے انکم ٹیکس کی دستاویزات تک خلاف قانون رسائی حاصل کی گئی۔ حاصل شدہ دستاویزات کو ریفرنس بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس جرم کی سزا سے بچنے کے لیے حکومت نے ایک قانون جاری کیا جسے موثر بہ ماضی رکھا گیا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اضافی نوٹ میں اسی جانب اشارہ کیا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ بیرسٹر فروغ نسیم اور بیرسٹر شہزاد اکبر اس کام میں ملوث تھے۔ حکومت کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے عمران خان کی انھیں آشیر باد بھی حاصل رہی۔
آرڈیننس میں ترمیم چیلنج ہو سکتی ہے
ممتاز ماہر آئین ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کے مطابق اس کیس میں چند روز پہلے شائع ہونے والا بیگم سرینا عیسیٰ کا خط خاص اہمیت رکھتا ہے۔ یہ خط انکم ٹیکس آرڈینینس کی ترمیم کے بعد شائع ہوا تھا۔ اس ترمیم کے ذریعے انکم ٹیکس کے ریکارڈ تک غیر قانونی رسائی اور ان سے حاصل کردہ معلومات کے استعمال پر تبصرہ کیا گیا تھا۔ اسی خط کے بعد بیرسٹر شہزاد اکبر مستعفی ہوئے تھے۔ انکم ٹیکس آرڈینینس میں ترمیم آنے والے دنوں میں اہمیت اختیار کر سکتی ہے۔ امکان یہ ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کے اس نوٹ کی بنیاد پر اسے چیلنج بھی کیا جاسکتا ہے۔
بیرسٹر فروغ نسیم اور حکومت کے دیگر ذمہ داروں کی تلملاہٹ کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ اسی لیے قانونی حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ فیصلہ حکومت کے لیے بہت سے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ اس فیصلے کے اثرات شہزاد اکبر اور فروغ نسیم سے ہوتے ہوئے عمران خان تک پہنچ سکتے ہیں۔