سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی شخصیت کے تناظر میں والدین اور اولاد کے مثالی تعلق کو لمحہ موجود میں حکمت عملی اور فکری مکالمے کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔ ذی الحجہ کے پہلے عشرے کے ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی برکتوں کو سمیٹنے کے ساتھ ساتھ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس کے ساتھ جڑے ہر جز کا نہ صرف تفصیلی مطالعہ کیا جائے بلکہ اس کے پس منظر کو سمجھ کر آج کی دوپہر کے ساتھ جوڑا جائے ۔کہ یہی اصل میں چیلنج ہے کہ اس عشرے سے جڑے عبادات کے تمام ارکان عبادات اور شعائر اللہ کے پیچھے ایک مکمل داستان ہے اور اس داستان کا ہر کردار انفرادی طور پر ایک عظیم اجتماعی رویے اور معاشرے کی تشکیل کرتا مظر آتا ہے۔اس کےضروری عناصر کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیارے بیٹے سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی خوشخبری قرآن کریم میں دی جاتی ہے تو ساتھ میں ان کے حلیم ہونے کی پیش گوئی بھی کر دی جاتی ہے۔آج ہم اس عظیم خاندان کے کردار کے ایک اور انتہائی اہم پہلو کو زیر بحث لانے جا رہے ہیں جس کی آج کے تناظر میں ہمارے خاندانی نظام کو مضبوط کرنے کے لیے بہت ضرورت ہے ۔ 21 ویں صدی کی ترقی و خوشحالی اور فرائض و اختیارات میں عدم توازن کے مشکل ترین سوالات کیسے حل کرنے ہیں؟۔سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے بطور باپ بیٹے تعلق کی ایک تصویر قرآن کریم ہمیں تعمیر کعبہ کے وقت دکھاتا ہے اور ایک تصویر ہم قربانی کے حکم الہی پر باپ بیٹے کی گفتگو میں دیکھتے ہیں ۔اسماعیل کی رب تعالی کی رضا پر سر تسلیم خم کرنے، ان کی باپ کے سامنے مکمل رضامندی ایک فرمانبردار بندے اور ایک فرمانبردار بیٹے ہونے کی تمام شرائط پوری کرتی نظر آتی ہے ۔اب اس فرمانبرداری کا نتیجہ کیا ہوا فوری طور پر رب کی رضا حاصل ہوتی ہے اور یہ عمل اتنا مقبول قرار پاتا ہے کہ تاقیامت اس شرط کو مناسک حج کا حصہ بنا دیا جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہم قرآن کریم میں ابراہیم علیہ السلام کی اس خصوصی دعا کو بھی پڑھتے ہیں جس کا اثر اسماعیل علیہ السلام کی نسلوں میں رہتا ہے جناب سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی و روشنی انسانیت کے لئے شعور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں زندہ و تابندہ ہے اور اس شعوری ارتقاء کا فیض تاقیامت زندہ کر دیا جاتا ہے ۔ مسلم معاشروں کو دیکھا جائے تو علم و عمل کے درمیان فاصلے پیدا ہوئے ہیں اور آج کے دور میں اس فاصلے کو اطاعت کی شکل میں تبدیل کرسکیں گے لمحہ موجود میں یہ سوال یقینا بہت مشکل ہے اور لمحہ فکریہ بھی ہے۔رب العالمین کے ہاں صرف اسماعیل علیہ السلام کو ہی اجر عظیم نہیں دیا گیا بلکہ یہ اجر ہر اس شخص کے لیے ہو گا جو اسماعیل علیہ السلام کی اس سنت کو زندہ رکھے گا۔ آج کے نسلوں کے لئے نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اختیار کرنے اور نئے زمانے کے بدلتے ہوئے رحجانات و ترجیحات کے تعین میں حکمت عملی اور فکری و سائنسی بیانیے کی تشکیل و تعبیر نو سب سے اہم چیلنج ہے جسے ذی الحجہ،قربانی اور انسانیت کے بزرگ ترین ہستی سیدنا حضرت ابرہیم علیہ السلام کے اتباع و پیروی میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے ورنہ تبدیلی اور ممکنات کی دنیا میں ارتقاء و فکری مکالمے کے سلسلے میں مفید اور تعمیری مباحث و دانش مندی کی آرزو مندی ضائع ہو جاتی ہے ۔فضیلت اور ثواب کے امیدوں کے چراغ روشن کرنے کے ساتھ ساتھ تہذیبی اور ثقافتی ورثہ و دانش مندی کی آرزو مندی کے لئے نئے عمرانی و سماجی شعور اور فکری و سائنسی بیانیے کی تشکیل و تعبیر نو کی ضرورت ہے.