عیدالاضحی کی مبارک آمد کے موقع پر عید قربان اور ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں کی اہمیت و افادیت اور حکمت و دانائی پیش نظر رکھ کر بنیادی تصورات اور زندہ سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مفید اور تعمیری مباحث و دانش مندی کی آرزو مندی کے ساتھ بدلتے ہوئے رحجانات و ترجیحات اور سوالات کو ایڈریس کیا جاسکے،
بنیادی طور پر اس وقت عبادات کے محدود تصورات اور نظریات کی عملی افادیت کی کمزور نوعیت کے اعتبار سے مسلم معاشروں میں الہامی راہنمائی و دانش مندی ماند پڑ گئی ہے جسے ازسرنو منظم اور مربوط کرنے کی ضرورت ہے ورنہ تبدیلی اور ممکنات کی وسعتوں کے باوجود زندگی کے بنیادی اصولوں و تصورات اور قیادت و رہنمائی میں آسانیاں پیدا نہیں ہوپاتی ہیں عیدالاضحی کے مبارک موقع پر حج و عمرہ اور قربانی و ایثار کے لئے سیدنا حضرت ابرہیم علیہ السلام و سیدہ ھاجرہ علیہ السلام کی بے مثال قربانیوں کی یاد دلاتی ہیں۔ انسانیت کے تین بنیادی بڑے مذاہبِ عیسائیت و اسلام اور یہودیت کی تشکیل اور تعمیر نو کا آغاز سیدنا حضرت ابرہیم علیہ السلام کی ذات مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے اور آج بھی اکیسویں صدی کے مسائل کے باوجود انسانیت اور خاص کر یہ تینوں بڑے مذاہبِ سیدنا حضرت ابرہیم علیہ السلام کی شخصیت اور کردار و عمل پر یکسو و پر اعتماد ہیں۔
ذی الحجہ کے دس دن ان فضیلت والے دنوں میں سے ہیں جن سے رب تعالیٰ نے مختلف اُمّتوں کو اور بطور خاص اُمّت محمدیہ کو نوازا ہے۔قرآن کریم میں بہت سی آیات اور احادیث مبارکہ خصوصی طور پر عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں ۔ ذیل میں درج شدہ سورت الفجر کی ابتدائی آیات مبارکہ اور حدیث بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
اس فضیلت کی تمہید کے باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ ان دس دنوں میں کیے گئے اعمال صالحہ ،تصورات کی تشکیل اور عبادات و معاملات کے اجر و ثواب میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔اور یہ اعمال ہمارے سال بھر کے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں اور آئندہ زندگی کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی دعوت دیتے ہیں۔ لمحہ موجود کی انسانی دانش مندی و نفسیاتی کیفیات جاننے کے لئے بطور مثال پیش نظر رکھیں کہ مغربی دینا اور انگریزوں کے ہاں سال کے آغاز کا پہلا دن تجدید عہد کا دن ہوتا ہے تو بطور مسلمان ہمارے لیے رب تعالٰی کی طرف سے سال میں کبھی رمضان المبارک کی صورت میں تو کبھی محرم الحرام کی صورت میں کئی مواقع ملتے ہیں کہ ہم اپنے اعمال کی کوتاہیوں کو درست کر لیں، توبہ کر لیں اور مولائے حق کی جانب رجوع کر لیں۔یہ عشرہ خصوصی فضیلت کا حامل ہے۔اور بطور خاص یہ فضیلت ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو راہ خدا میں عملی جہاد پر جا کر اجر عظیم حاصل کرنے سے قاصر ہوتے ہیں تو یہ موقع اعمال صالحہ کی انجام دہی کی صورت میں ان کی جھولیوں کو بھی اجر عظیم سے بھر دیتا ہے۔
اور یقینا یہ رب کعبہ کا خصوصی کرم ہے کہ جو لوگ دل میں کعبہ کے دیدار و حج کی خواہش لیے بیٹھے ہوتے ہیں وہ بھی خالی ہاتھ نہیں رہتے اور اللہ پاک کے کرم کی اور محبت کی عظیم مثال ہے جو سب کو نواز دیتی ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ
سورة الفجر: -آیت نمبر 1 تا 3 89سورۃ نمبر:
وَ الۡفَجۡرِ ۙ﴿۱﴾وَ لَیَالٍ عَشۡرٍ ۙ﴿۲﴾وَّ الشَّفۡعِ وَ الۡوَتۡرِ ۙ﴿۳
ترجمہ: اس صبح کی قسم۔اور دس راتوں کی۔ اور جفت اور طاق کی۔ علماء کرام اور محقیقین نے دس دنوں سے مراد ذی الحجہ کے یہ دس مبارک دن تصور کئے گئے ہیں اور جناب سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے خوبصورت انداز تعبیر میں
حدیث مبارکہ کے الفاظ میں اسے انتہائی معتبر اور مستند دن قرار دیتے ہوئے متوجہ فرمایا ہے :حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ يَعْنِي الْعَشْرَ ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دنوں یعنی ذی الحجہ کے دس دنوں سے بڑھ کر کوئی بھی دن ایسا نہیں کہ جس میں نیک عمل کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان دنوں کے نیک عمل سے زیادہ پسندیدہ ہو ، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بھی اتنا پسند نہیں، مگر جو شخص اپنی جان اور مال لے کر نکلے، اور پھر لوٹ کر نہ آئے ۔،،، (سنن ابن ماجہ: 1727+)
یہ وہ بلند پروازی کی تشکیل و تعبیر نو ہے جسے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ عملی زندگی میں سماجی انصاف و عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں اور انسانوں کی عزت و آبرو مندی کے لئے نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اور حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے جدوجھد و جستجو اور تخلیق و تدبیر ہی زندگی کا حاصل قرار دیا گیا ہے اور اسے ثمربار و تازگی بخشنے کے لئے ایک متعین دنوں میں زندگی کی تشکیل و تعبیر نو کے ساتھ جوڑ کر سیدنا حضرت ابرہیم علیہ السلام کی شخصیت اور کردار و قربانی کے ساتھ نئی دینا تشکیل و تعمیر نو کی ضرورت کے مطابق پیش کیا گیا ہے جسے حج و عمرہ اور قربانی و عیدالاضحیٰ کے دنوں میں سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے تاکہ بروقت اور برمحل استدلال و دانش مندی سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے نئی دینا تشکیل دیا جاسکے کرونا وائرس کی ہولناکیوں اور معاشی و سماجی افراتفری کے عالم میں روحانی و اخلاقی سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی ضرورت ہے جسے ممکنہ طور پر زیر بحث لانے کی ضرورت کے طور پر ذی الحجہ کے مبارک دنوں میں مکالمے و تعبیر نو کے لئے پیش کیا جاتا ہے آپ کے تاثرات و فکری سوالات کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس مکالمے و ڈائلاگ کو فعال و مربوط کرنے کی کوشش نوجوانوں اور طلباء وطالبات سمیت خواتین اور اہل علم کے لئے کیا گیا ہے۔