اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام کرغزستان کے معروف ادیب چنگیز اتماتوف کی منتخب کہانیوں کے تراجم پر مشتمل کتاب”منتخب کہانیاں چنگیز اتماتوف“ کی تعارفی تقریب منعقد ہوئی۔ پاکستان میں کرغزستان کے سفیرمحترم ایرک بشمابیف، مہمان اعزاز تھے۔ ڈاکٹر یوسف خشک، چیئرمین اکادمی ادبیات نے تقریب کے حوالے سے تعارف اور ابتدائیہ پیش کیا ۔ افتخار عارف ،حفیظ خان اور منیر فیاض نے چنگیز اتماتو ف کے فن و شخصیت کے حوالے سے گفتگو کی۔ نظامت ڈاکٹر ثناءطارق نے کی۔منیر فیاض نے بطور مترجم کتاب کے حوالے سے گفتگوں کی تقریب میں چنگیز اتماتوف کے حوالے سے فوٹو گرافک نمائش اور ان کے فن و شخصیت کے حوالے سے ڈاکومینٹری بھی دکھائی گئی۔ ڈاکٹر یوسف خشک، چیئرمین اکادمی، نے تقریب کا تعارف اور ابتدائیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان کے قیام کا مقصد جہاں ایک طرف پاکستانی زبانوں کے ادب کی ترویج و اشاعت ہے وہیں یہ بات بھی اس کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ بین الاقوامی ادب کو پاکستانی زبانوں خاص طور پر اردو میں ترجمہ کرائے تاکہ ہماری زبانوں کے علمی و ادبی سرمائے میں اضافہ کے ساتھ ساتھ پاکستانی ادبی قارئین دنیا بھر میں تخلیق ہونے والے ادب سے استفادہ کر سکیں۔انہوں نے کہاکہ چنگیز تو ر کلوو چ اتماتوف کا شمارکرغزستان کے اہم اور معروف ترین ادیبوں میں ہوتا ہے۔ وہ روسی اور کرغیز ہر دو زبانوں میں لکھتے رہے۔دنیا بھر کی مختلف زبانوں میں ان کی کہانیوں اور ناولو ں کے ترجمے ہو چکے ہیں۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ چنگیز اتماتوف ایک ایسے ادیب ہیں جن کی تحریریں سویت یونین کے زوال سے پہلے کے زمانے میں کرغیز عوام کی مضبوط آواز بن کر سامنے آئیں اور دنیا بھر میں مقبول ہوئیں۔ آج بھی ان کی کتابیں شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چنگیز اتماتوف کی کہانیوں میں کرغیز عوام کی زندہ اور چلتی پھرتی تصویریں ملتی ہیں۔ وہ جنگ سے متاثر معاشرے، غربت و بے روزگاری اور عورت کے سماجی و جنسی مسائل اورکمزور طبقے کے استحصال کو بڑی عمدگی سے اپنے فن کا موضوع بناتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کہانیوں کے مترجمین زیف سید اور منیر فیاض نے بڑی محنت، لگن اور توجہ سے ان کہانیوں کو اردو کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ انہوں نے کہاکہ مجھے امید ہے کہ یہ کتاب معاصر تراجم کے سلسلے کی اہم کڑی شمار ہوگی۔پاکستان میں کرغزستان کے سفیر محترم ایرک بشمابیف نے کہا کہ اتماتوف کی کہانیوں کی عالمی مقبولیت تحریر کی سادگی اور مقامی لوگوں کی طرز زندگی کا خوبصورت محاکمہ ہے۔ ان کی سوچ پوری نوع انسانی کی بہتری کے لیے ہے۔ وہ امن، فطرت کے تحفظ، روحانی، ثقافتی اور تاریخی ورثہ، معاشرتی مساوات اور انصاف کا فروغ چاہتے تھے۔ جنگ عظیم کے سخت سالوں کے دوران اس کا بچپن گزرا۔ انہوں نے سوویت یونین کو ختم ہوتے اور کرغزستان کو پیدا ہوتے دیکھا۔ اتماتوف کی کہانیوں کا اہم موضوع روایتی وسطی ایشیا سوسائٹی میں عدم مساوات رہا ہے۔اس موقع پر فتخار عارف نے کہاکہ کرغستان کے ادیب ، سفیر اور سیاسی رہنما چنگیز اتماتوف کا شمار بیسوی صدی کے عالمی سطح کے ناول نگاروں میں ہوتا تھا۔ ان کی زندگی کا آغاز سویت یونین کی علمی اور ادبی اداروں سے وابستگی کے ساتھ ہوا تھا۔ وہ کرغستان کے معروف نمائندہ ترین لکھنے والوں میں تھے۔ جنھوں نے اپنے خطے کی تہذیبی اور معاشرتی زندگی کو اپنے افسانوں اور ناولوں میں اُجاگر کیا۔حفیظ خان نے کہاکہ چینگیز اتماتوف نے انتہائی مشکل حالات میں اپنی دھرتی کے لوگوں کو نہ صرف جینے کا حوصلہ دیا بلکہ انھیں زبان بھی عطاکی۔ یہ وہ دور تھا کہ جب کرغستان ایک عہد سے دوسرے عہد میں منقلب ہورہا تھا۔ انھوں نے انسانوں کے درمیان ربط کو اپنے پر تاثیر تحریروں میں جلا بخشی۔ منیرفیاض نے بطور مترجم کتاب کے حوالے سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میں نے کرغزستان کے عالمی سطح کے ادیب چنگیز اتماتوف کی منتخب کہانیوں کے تراجم کیے اُنہوں نے کہا کہ شاعر اور ادیب قوموں کے بہترین سفیر ہوتے ہیں۔ تقریب کے آخر میں کرغستان کا لوک گیت اور پاکستانی ساز رباب اور ڈھولک کے ذریعے لوک موسیقی پیش کی گئی۔
تقریب میں کوریا، ترکمانستان، تاجکستان، قزاقستان کرغزستان کے سفیروں ساتھ مختلف ممالک کے ڈپلومیٹس اور پاکستان کی مختلف زبانوں کے ادبا و شعرا نے شرکت کی.
(ایم سعیدساعی)