اسٹیٹ بینک آف پاکستان بینکوں کے کروڑوں کھاتے داروں کے استحصال کا ذریعہ بن گیا، اس کا سبب یہ ہے کہ مرکزی بینک نے نفع اور نقصان میں شراکت کی بنیاد پر اکاؤنٹ کھولنے والے کھاتے داروں کی دی جانے والے شرح منافع کو بینک کے منافع کے بجائے اسٹیٹ بینک کی شرح سود سے منسلک کر دیا ہے جو ملکی قوانین کی خلاف ورزی اور پاکستان کے کروڑوں کھاتے داروں کے استحصال کے مترادف ہے۔
یہ انکشاف آج اس وقت ہوا جب ملک کے ممتاز ماہر معاشیات اور ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس کراچی کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئین پاکستان کی شق 184(3)کے تحت اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کے خلاف ایک آئینی درخواست ایڈووکیٹ حشمت حبیب کے توسط سے دائر کی۔
اس آئینی درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے نفع اور نقصان کی بنیاد پر کھولے گئے کھاتوں پر دی جانے والی شرح منافع کو بینک کے منافع کے بجائے اسٹیٹ بینک کی شرح سود سے منسلک کیا ہوا ہے۔ تجارتی بینکوں کو دئیے گئے اسٹیٹ بینک کے یہ احکامات بینکنگ کمپنیز آرڈیننس مروجہ 1962ء کی شق 40-A کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں۔ یہی نہیں’ افراط زر’ سے کم شرح سے منافع دے کر کروڑوں کھاتے داروں کا استحصال کیا جارہا ہے جو آئین پاکستان کی شق (3)کی خلاف ورزی ہے۔
وزارت خزانہ بھی بینکنگ کمپنیز آرڈیننس شق کی 26-A(4) خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہے۔ڈاکٹر شاہد صدیقی کی آئینی درخواست میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی ہدایات کے تحت بینکوں نے نفع اور نقصان میں شرکت کی بنیاد پر کھولے گئے کھاتے داروں کو اپنے منافع میں شریک نہ کرکے 21 ملین سے زائد کھاتے داروں کو تقریباً 2000 ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے
جس میں مارچ 2020ء سے اب تک کھاتے داروں کو پہنچنے والے 500 ارب روپے کے نقصانات بھی شامل ہیں۔ آئینی درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ تجارتی بینکوں کو دئیے گئے اسٹیٹ بینک کے غلط اور غیر قانونی احکامات کو کالعدم قرار دیا جائے تاکہ کروڑوں کھاتے داروں کے مفادات کا تحفظ ہو سکے۔