اسلام آباد میں سرکاری ملازمین پر بدترین تشدد

اسلام آباد میں مظاہرین کی پکڑ دھکڑ کے بعد مظاہرین کی قیادت نے کہا ہے کہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا جائے

ADVERTISEMENT

وفاقی حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے سے متعلق فیصلہ نہ ہونے پر سرکاری ملازمین پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے سراپا احتجاج ہیں اور پولیس کے ساتھ جھڑپ کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں نے درجنوں ملازمین کو حراست میں لے لیا ہے۔

وفاقی دارالحکومت کی پولیس نے پاک سیکرٹریٹ اور ڈی چوک کے سامنے مظاہرہ کرنے والے مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل استعمال کیے۔

حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا فیصلہ نہ ہونے کے بعد سرکاری ملازمین نے بدھ کو ہڑتال اور دھرنا دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں دفعہ 144 نافذ ہے اس لیے مظاہروں پر پابندی ہے۔

مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب اپنے مطالبات کے حق میں سرکاری ملازمین نے پاک سیکرٹریٹ کی طرف جانے والے راستوں کو بند کر دیا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اہلکاروں نے ان راستوں کو کلئیر کرنے کی کوشش کی تو مظاہرین نے ان پر پتھراؤ شروع کر دیا جس کے بعد مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر گن کا استعمال کیا۔

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات نے  بتایا کہ مظاہرین کو ایک الگ مقام پر مظاہرہ کرنے کی پیشکش کی گئی تھی لیکن انھوں نے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا۔

حمزہ شفقات کا کہنا ہے کہ اب بھی ضلعی انتظامیہ کی یہ کوشش ہے کہ مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کر کے معاملات کو حل کیا جائے تاہم ابھی تک اس معاملے میں کامیابی نہیں ملی۔

اسلام آباد پولیس سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی میں کافی متحرک نظر آئی جبکہ دو روز قبل وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی عدالت پر دھاوا بولا اور انھیں تین گھنٹے تک محصور رکھا گیا تو اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں نے نہ صرف کارروائی کرنے سے اجتناب کیا بلکہ وہاں پر چیف جسٹس کی سکیورٹی کے لیے تعینات پولیس اہلکاروں نے وہاں سے غائب ہونے میں ہی عافیت سمجھی۔

اس سے چند ماہ پہلے خواتین نرسوں نے اپنے حقوق کے لیے مظاہرہ کیا تھا ان کے خلاف بھی پولیس نے کریک ڈاؤن کیا اور انھیں حراست میں لیا تاہم سوشل میڈیا پر جب حکومت کے اس اقدام کو نتقید کا نشانہ بنایا گیا تو پولیس اہلکاروں نے زیر حراست خواتین کو رہا کر دیا تھا۔

اسلام آباد میں مظاہرین کی پکڑ دھکڑ کے بعد مظاہرین کی قیادت نے کہا ہے کہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا جائے۔

وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے بارے میں تجاویز کو حتمی شکل دے رہی ہے تاہم سرکاری ملازمین کا کہنا ہے کہ ابھی تک انھیں صرف کھوکھلے وعدے ہی دیے جا رہے ہیں جبکہ عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔

مظاہرین کے ایک نمائندے محمد واجد نے بتایا کہ رواں مالی سال کے دوران بھی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا تھا جس کے خلاف سرکاری ملازمین اور بالخصوص پاک سیکرٹریٹ میں قائم مختلف وفاقی وزارتوں میں کام کرنے والے ملازمین اپنے تئیں کوششیں کرتے رہے ہیں کہ کسی طرح یہ معاملہ حل ہو۔

اُنھوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین نے وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کی یقین دہانی پر اپنا احتجاج چند ماہ پہلے موخر کیا تھا کیونکہ انھوں نے کہا تھا کہ دو ماہ میں ان کے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔

واجد علی کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین کے پاس اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے اور مظاہرہ کرنے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں تھا۔

جبکہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا ہے کہ حکومت سرکاری ملازمین کو رواں مالی سال کے باقی ماندہ چار ماہ کے لیے عبوری ریلف دینے کو تیار ہے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے کام مکمل ہو چکا ہے اور مظاہرین جب چاہیں گے تو حکومت اس بارے میں نوٹیفکیشن جاری کر دے گی۔

انھوں نے کہا کہ صرف ان سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ کیا جائے گا جو وفاق کے زیر انتظام اداروں میں کام کر رہے ہیں جبکہ ایسے محکمے جو کہ صوبائی حکومتوں کے ماتحت ہیں ان کی تنخواہوں میں اضافے کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں کی ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمین اپنا احتجاج ختم کریں اور اگر ایسا نہ ہوا اور وہ سیاسی جماعتوں کا آلہ کار بنے تو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اُنھوں نے کہا کہ حزب مخالف کی سیاسی جماعتیں اس صورت حال سے ناجائز فائدہ اٹھنا چاہتی ہیں۔

حزب مخالف کی جماعتوں نے مظاہرہ کرنے والے سرکاری ملازمین پر پولیس کے تشدد کی شدید مذمت کی ہے۔

بہ شکریہ۔ بی بی سی اسلام آباد

Next Post

ہمارا فیس بک پیج لائق کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں