مجلس فکر و دانش علمی و فکری مکالمے اور شھید باز محمد کاکڑ فاؤنڈیشن رجسٹرڈ کے زیر اہتمام آوازہ اسلام آباد کے اشتراک سے نیشنل ڈائلاگ و سیمنار کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت بلوچستان پیس فورم کے چیئرمین و بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی راہنما نواب زادہ حاجی لشکری رئیسانی نے کی جبکہ مہمان خصوصی لاہور سے جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل و سابق صدر سٹوڈنٹس یونین پنجاب یونیورسٹی امیرالعظیم نے آن لائن کی اسلام آباد سے سنئیر دانش ور اور آوازہ ویب سائٹ کے سربراہ سابق مشیر صدر پاکستان فاروق عادل، سابق وفاقی وزیر و سماجی شخصیت روشن خورشید بروچہ ،کراچی سے وزیر اعظم کے سابق مشیر زاہد جان مندوخیل،چیئرمین شھید باز محمد کاکڑ فاؤنڈیشن رجسٹرڈ پروفیسر ڈاکٹر لعل خان کاکڑ مجلس فکر و دانش کے سربراہ عبدالمتین اخونزادہ،ایڈیشنل سیکرٹری حکومت بلوچستان
محمد فاروق کاکڑ، نیشنل پارٹی کے صوبائی ترجمان علی احمد لانگو، بلوچستان یونیورسٹی کے جینڈر اسٹڈیز کے فوکل پرسن پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ حبیب علیزئی،پروفیسر ڈاکٹر ندیم ملک، ممتاز ادیب و مصنف عبدالقیوم بیدار،بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام کے یوتھ افیزز کے فوکل پرسن غلام محمد محمدی بی ایس او کے مرکزی سیکرٹری جنرل منیر جالب بلوچ، جماعت اسلامی یوتھ ونگ کے صدر نورالدین غلزئی پی ایس ایف کے رہنما عالمگیر مندوخیل، بلوچستان عوامی سٹوڈنٹس کے راہنما فرید بگٹی،پرائیوٹ اسکولز کے صدر ملک عبدالرشید کاکڑ
حکمت اللہ اور دیگر مقررین نے مقالات جات، آن لائن اور مکالمے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمہوری معاشروں میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے طلبہ وطالبات اور نوجوانوں و خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے آئینی حقوق کی بحالی لازمی امر ہے ورنہ جمہوری تماشا سے معاشرے صرف اشرافیہ کے ڈرائنگ رومز کی خدمت کرتے ہوئے گھٹن محسوس کرتے ہوئے بلآخر بم کی طرح پھٹنے کے لئے لاوا اگلنا شروع ہوا ہے اس لئے حکمرانی کی طرز اور نئے علمی و فکری مکالمے پر ورکنگ کی اشد ضرورت ہے.
طلبہ وطالبات کی ضروریات پوری کرنے اور آواز و دانش کو مثبت رخ دینے کے لئے سٹوڈنٹس یونین کے میکنزم 21 ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق تشکیل دینے کی ضرورت ہے غربت و آمریت نے ملکر سماجی انصاف و ترقی کو بریک لگایا ہے جس کے باعث جمہوری نشوونما اور ارتقاء نہیں ہوپاتا ہیں انقلابات اور تبدیلیاں رونما ہوتے رہتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہم نے سطحی مفادات کی خاطر اپنے معاشرے کو بانجھ پن میں تبدیل کردیا گیا ہے اب علمی و فکری مکالموں اور ادبی و ثقافتی اہمیت کے حامل کوششوں سے اس خلاء کو پر کرنے کی ضرورت ہے ورنہ تبدیلی اور اصلاح معاشرہ کی تمام اجزاء و کوششیں ناپائیدار متصور ہوگے۔
ڈائیلاگ و سیمنار میں مشترکہ قرارداد کے ذریعے کہا گیا کہ ان تینوں علمی و فکری اداروں نے سوسائٹی کے اندر اعتماد و اعتبار پیدا کرنے اور سیاسی جماعتوں و طلبہ وطالبات کی توانائی کو جگانے کے ساتھ حکومتوں اور تعلیمی اداروں کے انتظامی سربراہان کو متوجہ کرنے کے لئے اس ڈائیلاگ و سیمنار کا انعقاد کیا گیا ہے اور ہم میڈیا و وکلاء سمیت دیگر متعلقہ حساس اداروں و اہل دانش سے کہا گیا کہ وہ طلبہ سیاست اور عملی زندگی میں کارآمد شہریوں کی لشکر تشکیل و تعمیر نو کے لئے اپنے جمہوری و آئینی حقوق پر سمجھوتے نہ کریں بلکہ آئینی حقوق اور جمہوری آزادیوں کے لئے ملکر کام کریں ورنہ بچہ جمہورا اور اشرافیہ کے ھاتھوں معاشرے کی ترقی اور خوشحالی ناپید ہونے اور آزادیاں خطرے سے دوچار رہیں گے۔
قراداد میں کہا گیا کہ 09 فروری کو طلبہ یونین کی پابندی کو آمرانہ یوم سیاہ منانے کے بجائے تعمیری اور مثبت اثرات مرتب کرنے کے ساتھ طلبہ تنظیموں کی 21 ویں صدی کے ضروریات اور سائنسی و تعلیمی تشکیل و تعمیر نو کے لئے توانائی و دانش مندی کی علامت کے طور پر منایا جائے۔