معیشت سے متعلق اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پاکستان کی سالانہ رپورٹ قوم کی توجہ کئی اہم نکات کی جانب مبذول کرائی ہے جیسے یہ کہ گزشتہ باون برس کے دوران یہ پہلی مرتبہ ہے کہ معیشت کی شرح نمو منفی ہو گئی جس کی وجہ سے عوامی مسائل میں اضافہ ہوا، بے روزگاری بڑھی اور مہنگائی میں اضافہ ہوا۔
اسٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ حکومت نے اس مالی سال کے دوران میں گزشتہ 9 ماہ میں جو معاشی استحکام حاصل کیا تھا۔ یہ کامیابی کورونا سے پیدا ہونے والے بحران کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہو گئی کیوں کہ حکومت کو اس کی وجہ سے عوام کو کاروبار اور گھرانوں کو امداد کی فراہمی تقریباً ڈیڑھ لاکھ گھرانوں کو ہنگامی امداد کی فراہمی شامل ہے جس کی وجہ سے معیشت کی شرح نمو سکرٹی چلی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کورونا کے دوران لاک ڈاؤن کی وجہ سے اقتصادی سرگرمیاں معطل ہونے کی وجہ سے صورت حال خراب ہو گئی۔
اسٹیٹ بینک نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے کچھ تجاویز بھی پیش کی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ معیشت کے ڈھانچے میں پائی جانے والی خرابیوں کو دور کر کے مسابقت میں اضافہ کیا جائے۔ ملک کا مالیاتی عدم توازن دور کرنے کے لیے پائیدار اقامات کئے جائیں ۔ اسٹیٹ بینک نے ٹیکس کی آمدنی میں اضافہ کر کے غیر ٹیکس محاصل پر انحصار کم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ مرکزی بینک نے تجویز پیش کی ہے کہ توانائی کے شعبے کی قیمت، انفرا اسٹرکچر اور نظم و نسق کے مسائل حل کیے جائیں۔
اسٹیٹ بینک نے مزید کہا ہے کہ ایف اے ٹی ایف پر کی گئی اہم پیش رفت کو برقرار رکھنا ہو گا، ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر کو ترقی دے کر مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
مستقبل کے ضمن میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومتی قرضوں کا حجم جی ڈی پی کا 1 اعشاریہ 1 فیصد تک محدود رکھا گیا ہے، معیشت کی موجودہ سمت کوروناوائرس سے پہلے کی طرز پر ہے، مستقبل میں پیش رفت کا انحصار عالمی صورتِ حال پر منحصر ہے، ویکسین کی خبریں حوصلہ افزا ہیں۔ رپورٹ میں آئندہ مالی سال میں جی ڈی پی کی نمو ڈیڑھ سے ڈھائی فیصد اضافے کا انداز لگایا ہے اور کہا ہے کہ موجودہ مالی سال کے دوران مہنگائی کی اوسط شرح 7 سے 9 فیصد رہے گی۔
یہ صورت حال اطمینان بخش ہرگز نہیں، ایسے حالات میں معاشی استحکام کے دعوے حیرت انگیز ہیں، عوام کے مسائل کے حل کے جامع اقدامات کی ضرورت ہے۔