ممتاز صحافی، دانش ور اور شاعر سعود ساحر کچھ دیر قبل اسلام آباد میں انتقال کر گئے۔ وہ طویل عرصے سے علیل تھے۔ ان کی نماز جنازہ اور تدفین بدھ کو اسلام آباد میں متوقع ہے، ان کے اہل خانہ تفصیلات کا اعلان بدھ کی صبح کریں گے۔
سعود ساحر نے بھرپور زندگی گزاری۔ وہ اپنے لڑکپن میں بھارت کے شہر سہارن پور سے ہجرت کر کے پاکستان پہنچے تھے، اس کے بعد انھوں نے اپنی تمام عمر اپنے نئے وطن کی خدمت میں گزار دی۔ ایام نوجوانی میں وہ کچھ عرصہ تک بائیں بازو سے بھی وابستہ رہے لیکن کچھ عرصے کے بعد مولانا مودودی کی فکر سے متاثر ہو گئے۔ انھوں نے پاکستان کے کئی اخبارات میں طویل عرصے تک خدمات انجام دیں۔ وہ قومی تاریخ کے کئی اہم واقعات عینی شاہد کی حیثیت تھے۔ سعود ساحر نے خبر کے حصول کے لیے کئی بار اپنی جان تک خطرے میں ڈال دی۔
1979 میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا کا معاملہ انتہائی خفیہ تھا لیکن شاہ صاحب واحد صحافی تھے جنھیں پھانسی کا دن اور وقت معلوم ہو چکا تھا۔ پھانسی سے کچھ دیر قبل وہ راول پنڈی کی تاریخی پہنچ چکے تھے جنھیں وہاں حراست میں لے لیا گیا۔
سعود ساحر کے انتقال پر قومی راہ نمآؤں نے گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا ہے۔