Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
یوں توکشمیرکا ہردن اورہررات سیاہ تاریخ کی تاریکی میں لپٹاہے،لیکن فروری ۱۹۹۱ء کی ۲۳اور۲۴کی درمیانی رات اس سیاہ تاریخ کی تاریک ترین رات سمجھی جائے گی۔ ہندوستان کی جمہوریت کااگرکسی کو ننگاناچ دیکھناہوتوکشمیر کی پوری تاریخ کی ورق گردانی کی چنداں ضرورت نہیں، بس کلینڈرکاماہِ فروری ہندوستان کی جمہوریت کا پیرہن چاک کرکے اس کوعریاں کرکے رکھ دیتاہے۔کون بھول سکتاہے ۹فروری ۲۰۱۳ء جس دن اس بربر جمہورِ کبیر نے اپنے مردہ ضمیرکی طمانیت کے لئے افضل گوروکوصبح کی تاریکی میں رازداری سے پھانسی پہ چڑھادیا۔اس سے کئی سال پہلے فروری ۱۹۸۴ء کی ۱۱تاریخ کواسی ننگ جمہورنے اپنی پاپی صورت کونمایاں کیا،جب مقبول بٹ شہیدکوتختۂ دارپہ لٹکادیا۔حدیہ ہے کہ ان کے باقیات تک کوبھی ان کے ورثاء کے حوالے نہ کیاگیا۔ مقبول بٹ صاحب ترہگام ضلع کپواڑہ کے تھے۔ ٹھیک اسی گاؤں کے متصل میں دواورگاؤں ہیں، کنن اورپوشپورہ، جہاں مقبول بٹ کی شہادت کے کچھ سال بعد بھارت کی سیاہ کاری اورننگی بربریت کا دنیانے تماشادیکھا۔ہاں میں کشمیری تاریخ کی اُسی سیاہ ترین رات کاتذکرہ کررہاہوں، جس کاحوالہ میں نے آغازمیں دیا۔ فروری ۱۹۹۱ء کی ۲۳اور۲۴کی درمیانی رات۔
یہ بھی دیکھئے:
گزشتہ سال تیس فروری کو سرینگرکے ایک ہوٹل میں “Do You remember Kunan-Poshpora”نامی کتاب کی رسم رونمائی تھی۔ اس پروگرام میں راقم بھی حاضرتھالیکن دوران پروگرام راقم نے جس قدراپنے آپ کوکمزورپایا،شایدہی اس سے پہلے خود کو اتناکمزوراورٹوٹاہوا محسوس کیاہوگا۔ کتاب کی رسم رونمائی کچھ مقدس خواتین کے ہاتھوں ہورہی تھی،وہی مقدس خواتین جواس سیاہ رات میں خونخواراوروحشی فوجی درندوں کی سیاہ کاری کی شکار ہوئی تھیں۔ یہ واقع جب پیش آیا،اس وقت میرابچپن تھالیکن واقعہ ایسا دلخراش تھاکہ کبھی ذہن سے ماؤف نہ ہوسکا۔ہربارجب کنن پوشپورہ کانام سنتا تورونگٹے کھڑے ہوجاتے۔اس تقریب پرراقم کوپہلی باران عظیم عورتوں کودیکھنے کاموقع ملا لیکن میری آبدیدہ چشم ان کو دیکھنے کی تاب نہیں لاپارہی تھی۔پہلی مرتبہ آنکھوں سے اتنے آنسوں بہیں ہوں گے۔
سال ۱۹۹۱ء فروری ۲۳۔۲۴کی درمیانی رات تھی۔فرش پہ برف کی یخ چادر تھی اورعرش پہ نیلگوں آسماں کھلا۔ یخ بستہ ہوااورٹھٹھرتی ٹھنڈ۔کپواڑہ سے بیس کلومیٹر دورایک طرف اوردوسری طرف اُس خونی لکیر جس نے کشمیرکو دولخت کیاہے، سے چالیس کلومیٹردورکنن اورپوشپورہ کے ان دوگاؤں میں رات گیارہ بجے تک زندگی معمول کی طرح رواں دواں تھی۔ رات کی تاریکی پوری طرح سے پھیل چکی تھی۔ مکانوں میں بتیاں بجھ چکی تھیں اورمکین آرام کی آغوش میں چلے گئے تھے کہ یکایک گیارہ بجتے ہی درندگی نے گھروں پہ دستک دی۔ وہ ناقابل فراموش رات نہ صرف کنن پوشپورہ کے لئے بھاری تھی بلکہ پوری دنیا کادل دہلانے والی رات تھی۔ مذکورہ کتاب کے ایک باب بہ عنوان “The Night in Kunan Poshpora” میں عین شاہدین اورمتاثرین کی زبانی اس روح شکن اورسوہانِ قلب وجاں روداد کوبیان کیاگیاہے۔ خداکی قسم اس ناقابل بیان روداد کو تحریرمیں لانا مشکل ہی نہیں بلکہ انتہائی خوفناک اوربھیانک محسوس کررہاہوں۔ گاؤں کے تمام مردوں کوالگ کیاجاتاہے،انہیں ایک کوٹھارنما انٹیراگیشن سینٹرکے باہر جمع کیاجاتاہے۔ بدترین تعذیب کا انہیں نشانہ بنایاجاتاہے۔شایدہی کوئی ایسی جسمانی اذیت ہوجس سے انہیں دوچارنہ کیا گیاہو۔گاؤں کانمبردار الگ کیاجاتاہے۔ بلچہ سے اسے ماراجاتاہے۔ رات بھرایک نزدیکی کوہل کے ٹھنڈے پانی میں اس کاسرڈبودیاجاتاہے۔ الیکٹرک شاک سے لے کررولرکااستعمال، گویابدترین ٹارچرمردوں پہ کیاگیا۔لیکن مردوں کے لئے سب سے تکلیف دہ پیچھے گھروں میں بیٹھی عورتوں کی چیخیں تھیں، جنہیں بھارتی فوج اپنی ہوس کانشانہ بنارہے تھے۔ دنیانے اس سے پہلے اس طرح کی ننگی جارحیت کو شاید ہی دیکھاہو۔ عمرکاکوئی لحاظ نہیں، تیرہ سال کی بچی سے لے کرستّر سال کی بوڑھی عورت درندہ فوج کی ہوس کانشانہ بن گئے۔معذورلڑکی کوبھی نہ بخشاگیا اورنہ ہی نومہینے کی حاملہ عورت کو۔
ڈاکٹریعقوب مخدومی، جوکہ اس وقت بلاک میڈیکل افسرتھے، کے مطابق اس رات کی شکار جن بتیس خواتین کے ٹیسٹ کرائے گئے، ان کی رپورٹ سے پایاگیا کہ ان بتیس خواتین کے ساتھ زبردستی دست درازی کی گئی۔ان کے جسموں پر نشانات پائے گئے۔ڈاکٹرمخدومی کے مطابق اس واقعے کی جوخواتین شکار ہوئیں، ان کی عمر پندرہ سال سے لے کر ستّرسال تک تھی۔ کنن پوشپورہ کے قریب ستّر خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ان میں سے پچاس خواتین نے اپنابیان بھی قلمبند کروایا۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران خان فسطائیت کی راہ پر کیوں چل رہے ہیں؟
یہ نوحہ ہے ہمارے کراچی کا جو کبھی عروس البلاد تھا
سوئز سیکرٹس میں شامل پاکستانی جرنیل ؛ جنرل اختر عبدالرحمٰن کون؟
ماں کے سامنے بیٹی کی عصمت دری ہوئی، بیٹی کے سامنے ماں کی۔ تمنا(نام تبدیل)نوماہ کی حاملہ تھی اوراپنے مائیکے آئی ہوئی تھی، گھروالے سب نئے مہمان کی آمد کی امیدمیں خوش تھے لیکن اس منحوس رات کو آٹھ سے نوآرمی درندے باری باری تمناکواس کی ماں کے سامنے اپنی ہوس کانشانہ بناتے ہیں۔ چنددن بعد تمنابچے کوجنم دیتی ہے لیکن بچہ ہاتھ کے فریکچرکے ساتھ اپنی آنکھیں کھولتاہے۔ آج جب کہ یہی بچہ تمنا سے چھبیس سال کے بعد وہ روداد سنناچاہتاہے توتمنا کی زبان گنگ ہوجاتی ہے اوربیان کرنے سے رہ جاتی ہے۔ رکھشک کے روپ میں بھکشک بیٹی کے سامنے ماں کی عصمت باری باری لوٹتے ہیں۔ کیاظلم کی بدترین صورت اس کے علاوہ کچھ اورہوسکتی ہے۔کیاہندوستان کی جمہوریت پہ اس سیاہ رات میں لگاسیاہ داغ کبھی دُھل سکتاہے۔یہ قطعاً نہ سمجھیں کہ یہ کسی بے ترتیب فوجی گروہ کی خودساختہ حرکت تھی۔ ناصاحب !اس گھناونے جبراوربربریت کوایک منظم اورافسروں کی باضابطہ قیادت میں ایک سوپچاس افراد پرمشتمل فوجی گروہ نے انجام دیا۔ یہ اصل میں آزادی کی اس تحریک کو، جس نے نوے عیسوی سے شدیدشکل اختیارکی تھی،کوکچلنے کی ایک بہیمانہ سازش تھی۔کشمیرمیں کیاکچھ نہیں آزمایاگیا۔اجتماعی گمشدگی، اجتماعی قتل وغارت، اجتماعی آتش زدگی، اجتماعی قبروں کے قبرستان اوراجتماعی عصمت دری جس کی کنن پوشپورہ ناقابل فراموش اورزندہ مثال ہے، کی شکل میں کشمیرکی تحریک آزادی کو خوف کی نفسیات جیسے حربے کا سہارالیتے ہوئے دباناچاہاگیالیکن ہمیشہ ناکامی ملی۔کنن پوشپورہ واقعے میں مجرموں کو کیفرکردارتک پہنچانے کی جنگ ہنوزجاری ہے۔ مبارک کے مستحق ہیں قوم کے وہ محسن، جوJKCSCـاورSGKPجیسے فورموں کے ذریعے انصاف کی جنگ لڑرہے ہیں اورانصاف کی یہ جنگ کپواڑہ کی نچلی عدالت سے گزرتے ہوئے اب ہندوستان کی اعلیٰ عدلیہ تک پہنچ چکی ہے۔حالانکہ اس علاقے کے مردوزن کو نہ صرف ڈرایاگیا بلکہ لالچ بھی دی گئی، لیکن انصاف کی جنگ لڑنے سے ان کوروکا نہیں جاسکتا۔ بقول مختارمسعود،شہیدقوم کے لئے ’’صدقہ‘‘ ہوتاہے اورمحسن ’’تحفہ‘‘۔واقعی ہماری جن پانچ بہنوں نے قابض فوج کا سنگین جرم اورمظلوم کنن پوشپورہ کے متاثرین کی آب بیتی کو جس جرأت مندی اوردلیری سے مذکورہ کتاب میں بیان کیاہے،کسی احسان سے کم نہیں۔ درحقیقت یہی لوگ اس مظلوم کے لئے تحفہ ہے۔کنن پوشپورہ میں جوکچھ کیاگیا، وہ خالی اجتماعی عصمت دری کامعاملہ نہیں، ایک جنگی سٹریٹجی تھی،جس کاثبوت یہ ہے کہ ہندوستان کی فوج نے ہرممکن کوشش کی کہ کسی طرح یہ کیس بند رہے اور کھولا نہ جائے۔ مزید براں اس کیس میں ملوث افرادوں کو کوئی سزا نہ ملے۔ کن پوشپورہ کا سانحہ طمانچہ ہیں ان اداروں پر جو عالمی برادری میں انسانی حقوق کا دم بھر تے ہیں اور ان ممالک کے لئے کلنک جو دنیا کو انصاف دلانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
یوں توکشمیرکا ہردن اورہررات سیاہ تاریخ کی تاریکی میں لپٹاہے،لیکن فروری ۱۹۹۱ء کی ۲۳اور۲۴کی درمیانی رات اس سیاہ تاریخ کی تاریک ترین رات سمجھی جائے گی۔ ہندوستان کی جمہوریت کااگرکسی کو ننگاناچ دیکھناہوتوکشمیر کی پوری تاریخ کی ورق گردانی کی چنداں ضرورت نہیں، بس کلینڈرکاماہِ فروری ہندوستان کی جمہوریت کا پیرہن چاک کرکے اس کوعریاں کرکے رکھ دیتاہے۔کون بھول سکتاہے ۹فروری ۲۰۱۳ء جس دن اس بربر جمہورِ کبیر نے اپنے مردہ ضمیرکی طمانیت کے لئے افضل گوروکوصبح کی تاریکی میں رازداری سے پھانسی پہ چڑھادیا۔اس سے کئی سال پہلے فروری ۱۹۸۴ء کی ۱۱تاریخ کواسی ننگ جمہورنے اپنی پاپی صورت کونمایاں کیا،جب مقبول بٹ شہیدکوتختۂ دارپہ لٹکادیا۔حدیہ ہے کہ ان کے باقیات تک کوبھی ان کے ورثاء کے حوالے نہ کیاگیا۔ مقبول بٹ صاحب ترہگام ضلع کپواڑہ کے تھے۔ ٹھیک اسی گاؤں کے متصل میں دواورگاؤں ہیں، کنن اورپوشپورہ، جہاں مقبول بٹ کی شہادت کے کچھ سال بعد بھارت کی سیاہ کاری اورننگی بربریت کا دنیانے تماشادیکھا۔ہاں میں کشمیری تاریخ کی اُسی سیاہ ترین رات کاتذکرہ کررہاہوں، جس کاحوالہ میں نے آغازمیں دیا۔ فروری ۱۹۹۱ء کی ۲۳اور۲۴کی درمیانی رات۔
یہ بھی دیکھئے:
گزشتہ سال تیس فروری کو سرینگرکے ایک ہوٹل میں “Do You remember Kunan-Poshpora”نامی کتاب کی رسم رونمائی تھی۔ اس پروگرام میں راقم بھی حاضرتھالیکن دوران پروگرام راقم نے جس قدراپنے آپ کوکمزورپایا،شایدہی اس سے پہلے خود کو اتناکمزوراورٹوٹاہوا محسوس کیاہوگا۔ کتاب کی رسم رونمائی کچھ مقدس خواتین کے ہاتھوں ہورہی تھی،وہی مقدس خواتین جواس سیاہ رات میں خونخواراوروحشی فوجی درندوں کی سیاہ کاری کی شکار ہوئی تھیں۔ یہ واقع جب پیش آیا،اس وقت میرابچپن تھالیکن واقعہ ایسا دلخراش تھاکہ کبھی ذہن سے ماؤف نہ ہوسکا۔ہربارجب کنن پوشپورہ کانام سنتا تورونگٹے کھڑے ہوجاتے۔اس تقریب پرراقم کوپہلی باران عظیم عورتوں کودیکھنے کاموقع ملا لیکن میری آبدیدہ چشم ان کو دیکھنے کی تاب نہیں لاپارہی تھی۔پہلی مرتبہ آنکھوں سے اتنے آنسوں بہیں ہوں گے۔
سال ۱۹۹۱ء فروری ۲۳۔۲۴کی درمیانی رات تھی۔فرش پہ برف کی یخ چادر تھی اورعرش پہ نیلگوں آسماں کھلا۔ یخ بستہ ہوااورٹھٹھرتی ٹھنڈ۔کپواڑہ سے بیس کلومیٹر دورایک طرف اوردوسری طرف اُس خونی لکیر جس نے کشمیرکو دولخت کیاہے، سے چالیس کلومیٹردورکنن اورپوشپورہ کے ان دوگاؤں میں رات گیارہ بجے تک زندگی معمول کی طرح رواں دواں تھی۔ رات کی تاریکی پوری طرح سے پھیل چکی تھی۔ مکانوں میں بتیاں بجھ چکی تھیں اورمکین آرام کی آغوش میں چلے گئے تھے کہ یکایک گیارہ بجتے ہی درندگی نے گھروں پہ دستک دی۔ وہ ناقابل فراموش رات نہ صرف کنن پوشپورہ کے لئے بھاری تھی بلکہ پوری دنیا کادل دہلانے والی رات تھی۔ مذکورہ کتاب کے ایک باب بہ عنوان “The Night in Kunan Poshpora” میں عین شاہدین اورمتاثرین کی زبانی اس روح شکن اورسوہانِ قلب وجاں روداد کوبیان کیاگیاہے۔ خداکی قسم اس ناقابل بیان روداد کو تحریرمیں لانا مشکل ہی نہیں بلکہ انتہائی خوفناک اوربھیانک محسوس کررہاہوں۔ گاؤں کے تمام مردوں کوالگ کیاجاتاہے،انہیں ایک کوٹھارنما انٹیراگیشن سینٹرکے باہر جمع کیاجاتاہے۔ بدترین تعذیب کا انہیں نشانہ بنایاجاتاہے۔شایدہی کوئی ایسی جسمانی اذیت ہوجس سے انہیں دوچارنہ کیا گیاہو۔گاؤں کانمبردار الگ کیاجاتاہے۔ بلچہ سے اسے ماراجاتاہے۔ رات بھرایک نزدیکی کوہل کے ٹھنڈے پانی میں اس کاسرڈبودیاجاتاہے۔ الیکٹرک شاک سے لے کررولرکااستعمال، گویابدترین ٹارچرمردوں پہ کیاگیا۔لیکن مردوں کے لئے سب سے تکلیف دہ پیچھے گھروں میں بیٹھی عورتوں کی چیخیں تھیں، جنہیں بھارتی فوج اپنی ہوس کانشانہ بنارہے تھے۔ دنیانے اس سے پہلے اس طرح کی ننگی جارحیت کو شاید ہی دیکھاہو۔ عمرکاکوئی لحاظ نہیں، تیرہ سال کی بچی سے لے کرستّر سال کی بوڑھی عورت درندہ فوج کی ہوس کانشانہ بن گئے۔معذورلڑکی کوبھی نہ بخشاگیا اورنہ ہی نومہینے کی حاملہ عورت کو۔
ڈاکٹریعقوب مخدومی، جوکہ اس وقت بلاک میڈیکل افسرتھے، کے مطابق اس رات کی شکار جن بتیس خواتین کے ٹیسٹ کرائے گئے، ان کی رپورٹ سے پایاگیا کہ ان بتیس خواتین کے ساتھ زبردستی دست درازی کی گئی۔ان کے جسموں پر نشانات پائے گئے۔ڈاکٹرمخدومی کے مطابق اس واقعے کی جوخواتین شکار ہوئیں، ان کی عمر پندرہ سال سے لے کر ستّرسال تک تھی۔ کنن پوشپورہ کے قریب ستّر خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ان میں سے پچاس خواتین نے اپنابیان بھی قلمبند کروایا۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران خان فسطائیت کی راہ پر کیوں چل رہے ہیں؟
یہ نوحہ ہے ہمارے کراچی کا جو کبھی عروس البلاد تھا
سوئز سیکرٹس میں شامل پاکستانی جرنیل ؛ جنرل اختر عبدالرحمٰن کون؟
ماں کے سامنے بیٹی کی عصمت دری ہوئی، بیٹی کے سامنے ماں کی۔ تمنا(نام تبدیل)نوماہ کی حاملہ تھی اوراپنے مائیکے آئی ہوئی تھی، گھروالے سب نئے مہمان کی آمد کی امیدمیں خوش تھے لیکن اس منحوس رات کو آٹھ سے نوآرمی درندے باری باری تمناکواس کی ماں کے سامنے اپنی ہوس کانشانہ بناتے ہیں۔ چنددن بعد تمنابچے کوجنم دیتی ہے لیکن بچہ ہاتھ کے فریکچرکے ساتھ اپنی آنکھیں کھولتاہے۔ آج جب کہ یہی بچہ تمنا سے چھبیس سال کے بعد وہ روداد سنناچاہتاہے توتمنا کی زبان گنگ ہوجاتی ہے اوربیان کرنے سے رہ جاتی ہے۔ رکھشک کے روپ میں بھکشک بیٹی کے سامنے ماں کی عصمت باری باری لوٹتے ہیں۔ کیاظلم کی بدترین صورت اس کے علاوہ کچھ اورہوسکتی ہے۔کیاہندوستان کی جمہوریت پہ اس سیاہ رات میں لگاسیاہ داغ کبھی دُھل سکتاہے۔یہ قطعاً نہ سمجھیں کہ یہ کسی بے ترتیب فوجی گروہ کی خودساختہ حرکت تھی۔ ناصاحب !اس گھناونے جبراوربربریت کوایک منظم اورافسروں کی باضابطہ قیادت میں ایک سوپچاس افراد پرمشتمل فوجی گروہ نے انجام دیا۔ یہ اصل میں آزادی کی اس تحریک کو، جس نے نوے عیسوی سے شدیدشکل اختیارکی تھی،کوکچلنے کی ایک بہیمانہ سازش تھی۔کشمیرمیں کیاکچھ نہیں آزمایاگیا۔اجتماعی گمشدگی، اجتماعی قتل وغارت، اجتماعی آتش زدگی، اجتماعی قبروں کے قبرستان اوراجتماعی عصمت دری جس کی کنن پوشپورہ ناقابل فراموش اورزندہ مثال ہے، کی شکل میں کشمیرکی تحریک آزادی کو خوف کی نفسیات جیسے حربے کا سہارالیتے ہوئے دباناچاہاگیالیکن ہمیشہ ناکامی ملی۔کنن پوشپورہ واقعے میں مجرموں کو کیفرکردارتک پہنچانے کی جنگ ہنوزجاری ہے۔ مبارک کے مستحق ہیں قوم کے وہ محسن، جوJKCSCـاورSGKPجیسے فورموں کے ذریعے انصاف کی جنگ لڑرہے ہیں اورانصاف کی یہ جنگ کپواڑہ کی نچلی عدالت سے گزرتے ہوئے اب ہندوستان کی اعلیٰ عدلیہ تک پہنچ چکی ہے۔حالانکہ اس علاقے کے مردوزن کو نہ صرف ڈرایاگیا بلکہ لالچ بھی دی گئی، لیکن انصاف کی جنگ لڑنے سے ان کوروکا نہیں جاسکتا۔ بقول مختارمسعود،شہیدقوم کے لئے ’’صدقہ‘‘ ہوتاہے اورمحسن ’’تحفہ‘‘۔واقعی ہماری جن پانچ بہنوں نے قابض فوج کا سنگین جرم اورمظلوم کنن پوشپورہ کے متاثرین کی آب بیتی کو جس جرأت مندی اوردلیری سے مذکورہ کتاب میں بیان کیاہے،کسی احسان سے کم نہیں۔ درحقیقت یہی لوگ اس مظلوم کے لئے تحفہ ہے۔کنن پوشپورہ میں جوکچھ کیاگیا، وہ خالی اجتماعی عصمت دری کامعاملہ نہیں، ایک جنگی سٹریٹجی تھی،جس کاثبوت یہ ہے کہ ہندوستان کی فوج نے ہرممکن کوشش کی کہ کسی طرح یہ کیس بند رہے اور کھولا نہ جائے۔ مزید براں اس کیس میں ملوث افرادوں کو کوئی سزا نہ ملے۔ کن پوشپورہ کا سانحہ طمانچہ ہیں ان اداروں پر جو عالمی برادری میں انسانی حقوق کا دم بھر تے ہیں اور ان ممالک کے لئے کلنک جو دنیا کو انصاف دلانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔