آج پھر رونے کو جی چاہتا ہے…کیونکہ مادر علمی جامعہ کراچی آج بے شمار مسائل کا شکار ہے۔غریب طلبہ کے لیے نجی تعلیم انتہائی مہنگی ہوتی جارہی ہے۔ وفاقی اور سندھ حکومت کے پاس اس جامعہ کے لیے فنڈز نہیں ہیں۔ وقت بھی نہیں ہے۔ البتہ صوبے میں نئی نئی سرکاری جامعات قائم کرکے مالی بوجھ میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ وی سی کی مستقل بنیادوں پر تقرری مہینوں سے ٹال مٹول کا شکار ہے…وجہ ایک بدترین اور
ناخوشگوار طریقہ کار…جس کے تحت وی سی جیسی عظیم ذمہ داری کے لیے قابل ترین افراد ایک سی ایس ایس آفیسر کے سامنے پیشی (انٹرویو) دیتے ہیں…پھر جسے پیا چاہے….
اس وقت حال یہ ہے کہ جامعہ کراچی کے سائنس کے بعض شعبے بدترین حالات سے دوچار ہیں….
سینٹر آف ایکسیلینس میرین سائنسز کے شعبے کی گیس عدم ادائیگی پر منقطع ہے…طلبہ و طالبات اپنی لیب میں آگ کے معمولی شعلے کو ترس رہے ہیں…مستقبل کیا خاک بنائیں گے…
گستاخی معاف…اکثر اساتذہ کے بارے میں اطلاع ہے کہ نفسیاتی ہوچکے ہیں…طلبہ کو رہنمائی کے بجائے غصے کا شکار بناکر دھتکارتے ہیں حالانکہ انہیں تحقیق کی طرف راغب کرنے کے لیے ڈسپلن کے نام پر دھتکارنے کے بجائے درست رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے..
چیئرمین شپ حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف لابنگ کی جاتی ہے….کئی مثالیں موجود ہیں..
اعلی سطح پر شعبوں کے مسائل حل کرنے کے بجائے سارا زور فوٹو سیشنز پر لگا ہوا ہے…
ایک جانب جامعہ کراچی کا یہ حال ہے تو دوسری جانب گورنر سندھ ایک نجی جامعہ اقراء یونیورسٹی کے دو مرتبہ ٹوکن ہی سہی لیکن معقول فنڈز دے چکے ہیں جس کی ضرورت اس مہنگی ترین نجی جامعہ کو نہیں ہے.. اقراء یونیورسٹی حنید لاکھانی صاحب کی ہے جو پی ٹی آئی کے مخیر کارکن اور آج کل بیت المال کے سربراہ بھی ہیں…
ایچ ای سی…صوبائی ایچ ای سی ..وفاقی اور صوبائی حکومت کو جامعہ کراچی سے کوئی غرض نہیں….
شاید جامعہ کراچی کا قصور یہ ہے کہ کراچی اس کے نام کا حصہ ہے….
اور کراچی ….اسلام آباد اور سندھ کی بیورو کریسی کے لیے سوتیلی اولاد ہی رہا ہے…
کاش وطن عزیز میں کوئی ایسا یتیم خانہ بھی ہو جہاں تین کروڑ یتیموں کے شہر “کراچی” کو داخل کرایا جاسکے…
گستاخی معاف….