دنیا کے تمام ماہر لسانیات، ماہرین تعلیم اور دانشوروں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ تعلیم سمیت زندگی کے ہر شعبے میں تیز رفتار ترقی کے لئے لازمی ہے کہ مادری زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنایاجائے کیونکہ ایک بچہ اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں کے دوران مادری زبان سیکھ لیتا ہے اور اگر اس کی مادری زبان ہی حصول تعلیم کا ذریعہ بھی ہو تو اس کی علمی صلاحیتیں تیزی کے ساتھ فروغ پاتی ہیں جب کی تعلیمی زبان کا غلط انتخاب ابتدا میں ہی مسائل پیدا کر دیتا ہے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ترقی کی منازل انہی اقوام نے تیزی سے طے کی ہیں جنہوں نے مادری زبانوں میں حصول علم کو اپنا نصب العین بنا رکھا ہے۔ اس کی واضح مثال برطانیہ،چین، روس، جاپان، فرانس، امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک ہیں۔
مادری زبانوں میں تعلیم کی اہمیت و افادیت کے بارے میں 5ستمبر کو شہید باز محمد کاکڑ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ڈیجیٹل لائبریری کوئٹہ میں ایک سیمینار منعقد ہوا۔جس کے روح رواں چیئرمین فاؤنڈیشن پروفیسر ڈاکٹر لعل محمد کاکڑ ہیں جو ہر وقت متحرک نظر آتے ہیں۔ یقینا ہم ڈاکٹر لعل محمد کاکڑ اور مجلس فکر و دانش کے سربراہ عبدالمتین اخونزادہ کی ان کاوشوں کو سراہتے ہیں کہ وہ وقتاً فوقتاً ایسے نشستوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ جس سے علمی و فکری مباحث کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور اس سے علم و دانش کے نئے در کل جاتے ہیں۔ تقریب کے مہمان خصوصی اعزازی قونصل جنرل حکومت جاپان سید ندیم شاہ، صدارت چیئرمین شہید باز محمد کاکڑ فاؤنڈیشن پروفیسر ڈاکٹر لعل محمدکاکڑ نے کی جبکہ مقررین میں ڈاکٹر عبدالرؤف رفیقی، عبدالقیوم بیدارؔ، سید علی شاہ، طارق حسین منگی، محکمہ ترقی نسواں کے ڈائریکٹر محترمہ منزہ قیوم، پشتون زبان کی شاعرہ محترمہ آرزو زیارت وال اور فاؤنڈیشن کے سیکرٹری اور مجلس فکر و دانش کے سربراہ عبدالمتین اخونزادہ شامل تھے۔
اس سلسلے میں نامور دانشور،اُستاد او رماہر لسانیات عطاء الحق زیرک نے تحقیق و جستجو کرتے ہوئے ”تعلیمی زبان کاغلط انتخاب“ تیسری دنیا کے 5 ارب انسانوں کا المیہ…… کے عنوان سے ایک کتابچہ مرتب کیا ہے جس کا مقصداس بات کا جائزہ لینا ہے کہ کسی ملک کی تعلیمی نظام کی کامیابی میں تعلیمی زبان کے انتخاب کا کتنا عمل دخل ہے۔ اور ایک کامیاب تعلیمی نظام کسی ملک کی ترقی میں کتنا اہم کردار ادا کرتا ہے۔انہوں نے اس حوالے سے اپنے مقالے میں کہا۔
رسمی تعلیم کے حوالے سے مادری زبان وہ زبان ہے جو بچہ سب سے پہلے سیکھتا ہے۔ او ردوسری زبانوں کے مقابلے میں ا چھا بول بھی لیتا ہے۔
تعلیمی زبان کا ایسا ماڈل جس میں بچے کو اس زبان میں تعلیم دی جائے۔جو زبان بچہ سکول میں داخلے کے وقت بول سکتا ہو۔ مادری زبان کا تعلیمی ماڈل کہلاتا ہے۔ اس ماڈل کو اولین زبان کا ماڈل بھی کہتے ہیں۔
تیسری دنیا کے اکثر ممالک بشمول پاکستان تعلیمی میدان میں پیچھے کی طرف گامزن ہے۔ اور یقینا اس تعلیمی پس ماندگی کی بڑی وجہ تعلیمی زبان کا غلط انتخاب ہے۔
اس وقت تیسری دنیا کے ممالک میں جوتعلیمی زبان والے ماڈلز رائج ہیں وہ ماڈلز نتائج کے اعتبار سے ناکام ترین ماڈلز ہیں۔
یوں تو عطاالحق زیرک نے مادری زبان ذریعہ تعلیم۔ جامع پالیسی کے حوالے سے مختلف تجاویز پیش کی ہیں لیکن ہم کالم کی طوالت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی تجاویز کو پیش نہیں کرسکتے لیکن مختصراً چند نکات پیش خدمت ہیں۔
ترقی پذیر ممالک اب تک تعلیمی زبان کے انتخاب کے حوالے سے کنفیوژن کے شکار ہیں۔ یہ ممالک کبھی بین الاقوامی زبانوں کو اوپر کی کلاسز کے لئے ترقی کا ضامن سمجھتے ہیں۔ تو کبھی قومی یکجہتی کے نام پر قومی زبانNational Languagesکو تعلیمی زبان کے طور پر فرو غ دیتے ہیں۔ تو کبھی پرائمری سطح پر مادری زبان میں تعلیم دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان ممالک میں پچھلے 50سال سے10 سے زائد تعلیمی پالیسیاں بنی ہیں اور ہر تعلیمی پالیسی میں زبان کے حوالے سے ہر بار نئے نئے ماڈلز آزمانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ مگر یہ ممالک بجائے آگے کے پیچھے کی طرف گامز ہیں اور یہاں پر تعلیمی میدان میں منفی چکر Negative Spiralپیدا ہوچکا ہے۔
پاکستان میں بھی اس وقت مادری زبانوں کو چھوڑ کر سرکاری سطح پر انگریزی، اردو، اور مدارس میں فارسی اور عربی میں تعلیم دی جاتی رہی ہے اور شاید مستقبل قریب میں چائنیز کو بھی آزمانے کی کوشش ہو۔ مگر اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہی کہ تیسری دنیا کے تمام ممالک بشمول پاکستان تعلیمی میدان میں پیچھے کی طرف گامزن ہیں اور یقینا اس تعلیمی پسماندگی کی بڑی وجہ تعلیمی زبان کا غلط انتخاب ہے۔مگر اب بھی اگر منطقی اور حقیقی سوچ کے ساتھ تعلیمی زبان کا انتخاب کیاجائے اور ایک قابل عمل او ربہتر تعلیمی زبان والا ماڈل اپنا یاجائے جس کے لئے تعلیمی زبان کی قابل عمل پالیسی یوں بن سکتی ہے جو کہ پوری دنیا میں تعلیمی زبان کے ماڈل بنانے کے لیے کہیں بھی لاگُو ہوسکتی ہے۔
تعلیمی زبان کی مجوزہ پالیسی
1۔ تعلیمی زبان کا انتخاب لسانی علاقے کی لسانی کثافت کی بنیاد پر کیا جائے گا۔
2۔ ایک بڑے لسانی علاقے میں اس علاقے کی بڑی زبان جس کی لسانی کثافت 60سے اوپر ہو تعلیمی زبان ہوگی۔
3۔ ایک بڑے لسانی علاقے میں آباد چھوٹے لسانی گروہ کے بچے اس مخصوص علاقے کی بڑے زبان میں تعلیم حاصل کریں گے اگر وہ بچے اسکول میں داخلے کے وقت اس علاقے کی بڑی زبان بول سکتے ہوں۔
4۔ کسی شہر/بڑے لسانی علاقے میں موجود بیس فیصد سے زیادہ لسانی کثافت والی چھوٹی گروہ کے بچوں کو اختیار ہوگا کہ وہ علاقے کی بڑی زبان میں تعلیم حاصل کریں یا پھر اپنی مادری زبان میں۔یا اس کے لیے انہیں اسکول اور مکمل تعلیمی سہولیات اور ماحول فراہم کیا جائے گا۔
5۔ کسی شہر یا علاقے میں باہر سے آئے ہوئے بچے جو اس مخصوص علاقے کی بڑی زبان نہیں بول سکتے ان کے لیے الگ سے آبادی کے لحاظ سے کوئی نیشنل یا انٹرنیشنل اسکول قائم کی جائے گی جو کہ کسی علاقائی /قومی یا بین الاقوامی زبان میں تعلیم دیں گے۔
6۔ اگر کسی چھوٹی لسانی گروہ کے بچے کسی بڑے لسانی علاقے کی بڑی زبان میں تعلیم حاصل کررہے ہوں، اُن بچوں کو کسی تعلیمی دورانیے کے دوران اپنی مادری زبان بطور مضمون پڑھنے کا اختیار ہوگا تاکہ ان کی زبان و ثقافت محفوظ رہے اور اس کے لیے اسکول ان بچوں کو مکمل تعلیمی ماحول فراہم کرے گا۔
سیمینار کے دیگر شرکاء نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا،”پاکستان کا سب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ یہاں ”رائٹ مین فار رائٹ جاب“کی بجائے ہم غلط بندوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ اور خاص کر ہمارے پالیسی ساز اداروں اور حکومتی اداروں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو جس محکمے کا سربراہ ہے اسے اس محکمے کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔مثلاً محکمہ تعلیم کا وزیر ایسے شخص کو بنایا جاتا ہے جن کی تعلیم پرائمری ہوتی ہے یا صحت کا وزیر ایسے شخص کو لگایا جاتا ہے جو میڈیکل کے بارے میں کم علم رکھتا ہے۔“ انہوں نے کہا کہ ہمارے پالیسی ساز اداروں کو اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔“