افغانستان میں سارا مسئلہ پہلے دن سےمعاشی،سیاسی کنٹرول اور strategicھے۔افغانستان ،چین،ایران پاکستان،سنٹرل ایشیا کے قدرتی بلاک کا مکُّو ٹھپنے کا سارا کھیل ھے۔افغانستان کے سارے فریق کسی نہ کسی “قاضی الحاجات” کے دامن سے بندھے ہوئے تھے اور ہیں پہلے بھی اب بھی۔ایک طرف دو ارب آبادی کے چین کے مقابل دو ارب کے بھارت کو اس کے ہم پلہ بنانے اٹھانے کے لئے پُوری چھپکلی امریکہ نے نگلی ھے تو دوسری طرف عرب و عجم کی روایتی کشمکش کی آگ اس خطے میں سلگائی گئی ہے۔
پاکستان کی ہمہ قسم قیادت اس بصیرت اہلیت اور وسائل حتیٰ کہ عوام کے اعتماد تک سے محروم ھے جو ایسی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لئے بے حد ضروری ھے۔اس سب کچھ کے باوجود ھمیں اپنی ریاستی و قومی قیادت کے ساتھ رہنا ھے، صرف اسے مطعُون کرکے مزید بے وقعت نہیں کرنا چاہئیے مجھے اس بات سے اتفاق ھے۔ بلاشُبہ پاکستان شدید مشکلات میں گھِرا ھے،معاشی سیاسی اور اخلاقی طور پر عملاً دیوالیہ ھے،ایسے میں عسکری اور سیاسی قیادت کی سطحی اور انا بھری چپقلش،زہر قاتل ھے جس سے دونوں کو گریز کرنا چاہئے۔ایک مدبرانہ قیادت تب تک نہیں ابھر سکتی جب تک ایک مکمل جمہوری کلچر فروغ نہیں پاتا اور ایک صحیح معنی میں آزادانہ انتخابی عمل رواج نہیں پاتا۔اس سے سیاسی قیادت عوام کا دباؤ آئے گا کہ وہ بالغ نظری اور تدبر سے ملک چلائیں۔اور افواجِ پاکستان اپنے آپ کو صرف اور صرف دفاع وطن کے مقدس فریضے کی انجام دہی کے لئے وقف ہوجائیں۔ کاروبار،رھائشئی و کمرشل تعمیرات،سیاست، خارجہ امُور اور نظریاتی سرحدیں عوام اور ان کی true منتخب قیادت پر چھوڑ دیں۔ یہ اس سارے بحران سے نکلنے کا اصل راستہ ھے۔ اگرچہ یہ راستہ طویل ھے۔ جو آج کا فوری چیلنج ھے امریکہ چین افغانستان،بھارت ایران،وغیرہ اس پر بھی عسکری اور سیاسی قیادت سنجیدگی،دردمندی اور ذمہ داری سے بند کمرے میں بیٹھ جائے(بعض موقعوں پر اس کا کامیاب تجربہ بھی ہوا ھے)یہ جو بھی حل اور تدابیر طے کرلیں ہر طرح کی گروہی عصبیت سے الگ ہو کرھمیں دل و جان سے اس کو سپورٹ کرنا چاہئے۔اس میں اگرچہ کئی پندار ٹوٹ سکتے ھیں،انائیں مجروح ہو سکتی ھیں مگر راستہ یہی ھے اسے ترک کئے رکھیں گے تو پھر صرف ٹامک ٹوئیاں ھیں جو جب تک چاہیں مارے رکھیں۔