گلگت بلتستان کی طرح،آذاد کشمیر میں بھی انتخاب کا قصہ تمام ہوا۔اگرچہ انتخابی مہم سے لے کر ووٹنگ تک،کسی مرحلے پر بھی مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے لئےکوئی بہتر پیغام نہیں گیا۔واضح ہو گیا کہ کشمیری بری طرح منتقسم ہیں اور یہ تقسیم بہت سوں کی خواہش اور اقتدار کےاصل مالکوں کی تدبیری حکمت عملی کا مستقل حصہ بھی ھے۔
٭~کہنے والے کی اس بات میں بھی وزن ھے کہ خُوئے غلامی،حب عاجلہ اور اختیارات کے مرکز یا پیا کی سہاگن بننے کی تمنا لکیر کے اس طرف اکثریت کی نفسیات میں داخل ھے۔
٭انتخاب کا ڈول ڈالنے کے آغاز میں لگا کہ پیپلز پارٹی کو آگے آنے یا لانے کا ارادہ بن رھا ھے،پھر مہم کے وسط میں حالات کے جبر نے اس ارادے کو توڑ ڈالا اور کوہالہ کے پار بھی عہدِعمرانی کی توسیع تسلیم کرلی گئی۔
٭ راجا فاروق حیدر مخصوص حلقوں کےمعتُوب اور اب سخت ناپسندیدہ تھے لہٰذا ان سے خلاصی ضروری ہوگئی تھی۔گزرے تین سالوں کے دوران اسلام آباد کے لئے آزاد کشمیر کی مسلم لیگی حکومت ایک چھچھوندر کی مانند تھی چنانچہ اس سے معاندانہ سلوک رکھا گیا،ترقیاتی کاموں اور مالی امور میں انہیں سوتیلے پن کا سامنا تھا جس سے آذاد کشمیر میں حکومتی کارکردگی پر منفی اثر غالب تھا۔
٭ فاروق حیدر اپنے مزاج اورطرزعمل سے اپنوں اور بیگانوں کو ناراض کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں،پھر خود کوئی متحرک یا کرشماتی شخصیت بھی نہیں ھیں اس کا اثر اُلٹا پڑنا تھا سو وہ بھی پڑا۔
٭مسلم لیگ ن اور اس کی ساری قیادت کے خلاف ملک دشمنی، بھارت نوازی،کرپشن اور لُوٹ مار کا پروپیگنڈہ بڑے زور شور اور تسلسل سے جاری رکھا گیا،ووٹرز خصوصاً متذبذبین پر اس کے اثرات بھی مرتب ہوئے۔
٭اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو اور مریم نواز نے بڑی تیزی سے اپنے ووٹروں کو متحرک کیا،ان کے حامیوں نے جوق در جوق جلسوں اور ریلیوں میں شرکت کی مگر ان کی انتخابی تقاریر کسی مثبت،واضح پیغام اور پروگرام سے محروم تھیں محض جذباتیت دیرپا اثر مرتب نہیں کرسکتی۔
٭عمران خان کی شخصیت کا بُنا گیاتاثر اور ان کے وزراء کے دورے اور کشمیر میں ڈیرے مؤثر ثابت ہوئے،ان کے جلسوں میں بھی بھرپور رونق تھی اور تازہ دم جوشیلے لوگ موجود رہے۔انتخاب سے پہلے ہی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے الیکٹ ایبلز اور نوزائیدہ اے ٹی ایم ایبلز سمیت سو سے زائد مؤثر افراد کو قابو کرلیا گیا تھا جو انتخابی مہم اور ووٹرز مینجمنٹ میں بہت مددگار ثابت ہوئے۔حکومتی وسائل اور دینے والے ہاتھ موجود تھے جو معتوبین کے مقابلے میں زیادہ بھروسہ دلاسکتے تھے۔اس کے ساتھ پی ٹی آئی کو چوہدری سلطان محمود جیسا جوڑُو توڑُو گھاگ اور تجربہ کار فرد بھی میسر تھا۔
٭کم از کم سولہ سترہ حلقوں میں جہاں ھار جیت کا تناسب صرف پچاس سے دوتین ہزار ھےوھاں سرکاری وسائل، انتظامیہ، حکومتی وزرا،ممبران اسمبلی اور دیدہ و نادیدہ منتظمین نے پوری محنت اور مہارت سے پی ٹی آئی کو واضح اکثریت دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو اس سب کچھ کے باوجود دونوں ہاری پارٹیوں کی چھ سات سیٹیں فی کس یقینی طور پر بڑھ جاتیں، پیپلز پارٹی حکومت بنا سکتی تھی، مسلم لیگ کے حصہ میں تب بھی خسارہ ہی خسارہ تھا۔لیں جناب اس انتخاب کا میرے پاس بس اتنا سا گوشوارہ ھے جو پیش کردیا ھے،لکیر کی دوسری طرف بہرحال پیغام کوئی اچھا نہیں گیا یہ پکی بات ھے۔ باقی اب جو ہو سو ہو، دیکھتے رہیں گے، تماشائی اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔