وسائل کے درست استعمال کا فیصلہ ہی زندگی و احساس دردمندی کا ادراک و کمال منزل تک پہنچنے کا امکان پیدا کرتا ہے
کمشنر و ایڈمنسٹریٹر کوئٹہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن نے یوم آزادی کے موقع پر بلدیاتی اداروں کی ناکامی کا المناک کہانی بیان کی گئی ہے جبکہ حقیقت اس طرح نہیں ہے
محمد حمزہ شفقات لکھتے ہیں کہ ,,رواں سال مارچ کے مہینے میں مجھے میٹروپولیٹن کارپوریشن کوئٹہ کا چارج ملا۔ مجھے یہ چارج سنبھالےہوئے پانچ ماہ ہونے کو ہیں ۔ میں گزشتہ دوسال سے کوئٹہ میں ہوں ۔ اس شہر کے بارے میں عمومی تاثر یہی تھا کہ یہاں انتظامی امور بالخصوص صفائی ستھرائی کاکوئی پُرسانِ حال نہیں ۔ اب چونکہ شہر کی صفائی کا محکمہ بھی میرے زیرِ انتظام ہےتو اس حو الے سے کچھ اہم حقائق سے آگاہی ضروری ہے۔
عام طور پر ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ میٹرو پولیٹن کا کوئی ملازم کام نہیں کرتا اور یہ کہ میٹرو پولیٹن میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہو رہی ہے۔ میٹرو پولیٹن کے بارے میں حقائق سے آگاہی نہ ہونے کے سبب اکثر فنڈز میں خرد برد کا الزام لگادیا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ سچ یہ ہے کہ میٹرو پولیٹن کا عملہ نہایت تندہی اور جاں فشانی سے اپنے کام میں مگن ہے۔ یہاں کے ورکرز ہمہ وقت اپنی ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں اور مشکل ترین حالات میں بھی اپنی بساط کے مطابق کام کرتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میٹروپولیٹن پر اتنی تنقید کیوں ہوتی ہے؟ کیا محکمے کے لوگوں میں کام کرنے کی لگن نہیں یا شہر کی اس ابتر صورتحال کے ذمہ دار وہ مخصوص عوامل ہیں جن کے سامنے پورا محکمہ بے بس ہے۔،،
( یہ عوامل بیان کرنے اور دور کرنے کی ضرورت ہیں)
ان سوالات کاجواب جاننے کے لیے ہمیں کچھ بنیادی حقائق کا جائزہ لینا ہو گا ۔
1۔ میٹرو پولیٹن کی گاڑیوں کو ماہانہ تقریباً چالیس ہزار لٹر کا پٹرول درکار ہوتا ہےاور یہ استعمال پچھلے پانچ سالوں سے ایسے ہی ہے۔ 2019 میں بھی یہی صورتحال تھی لیکن اس وقت پٹرول کی قیمت کیا تھی اور اب قیمتیں کہاں ہیں ۔ اخراجات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ محکمہ ایک ارب روپے کا مقروض ہے۔ ( حالانکہ اصل سوال یہ ہے کہ چالیس ہزار لیٹر استعمال کرنے اور ایک ارب روپے مقروض ہونے کے باجود صفائی و پاکیزگی کی حالت زار ابتری کا شکار کیوں ہیں)
2۔پٹرول کے علاوہ بیسیوں اخراجات اور ہیں ( دراصل انھیں اخراجات کو چیک کرنے اور وسائل کی درست استعمال درکار ہیں)۔ ورکرز کی تنخواہیں دینے کے لیےمناسب فنڈزہی نہیں ہیں جن کے بغیر ایک دن بھی نظام نہیں چل سکتا ۔ گزشتہ چھ ماہ سے مزدوروں کو ادائیگیاں نہیں ہوئیں( یعنی یہ انکشاف کمشنر کوئٹہ اور پانچ ماہ سے میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے ایڈمنسٹریٹر کررہے ہیں)۔
خود سوچیے اگر کوئی میونسپلٹی اپنی تنخواہ نہ لے سکے تو وہ کیسے کام کرے گی؟
( سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر صوبائی حکومت کے ایماء پر بلاشبہ اربوں روپے کیسے صفائی کے نام پر نکالے گئے ہیں اور خود 14 اگست کے چراغاں پر کتنی رقم ضائع کی گئی جب تنخواہیں بقایا ہیں مزدروں کے)
3۔سچ یہ ہے کہ میٹرو پولیٹن کو بہت زیادہ نظر انداز کیا گیا ہے ۔ آپ یہ دیکھیں کہ گزشتہ دو دہائیوں سے محکمے کو مشینری کی خریداری کے لیے کسی طرح کے فنڈز نہیں دیے گئے۔ ڈمپر اور ایکسویٹر 30 سال پہلے خریدے گئے تھے جو کچرا اٹھانا تو دور کی بات ، اب اپنا بوجھ اٹھانے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔ مشینری کی مرمت کا خرچ محکمے کے مجموعی انتظامی خرچ کو ہڑپ کر سکتا ہے۔تو ایسے میں کون مشینوں کی مرمت کا بیڑہ اٹھائے؟
یہ بھی پڑھئے:
جنرل مشرف استعفے پر مجبور کیوں ہوئے؟
کیا ارشد ندیم کی کامیابیوں کو تسلسل برقرار رہے گا؟
وزیر اطلاعات معیشت کے محاذ پر
( یہاں ایڈمنسٹریٹر کوئٹہ آدھا سچ بیان کررہے ہیں جس کمپنی کے ساتھ کچرا اٹھانے کا باضابطہ تحریری معاہدہ طے پایا تھا وہ کیونکر ناکام رہا ہے)
4۔ پچھلے پانچ سالوں سے محکمہ منتخب نمائندوں کے بغیر کام کر رہا ہے۔اسے کوئی ترقیاتی سکیم نہیں دی گئی۔ سڑکوں کی مرمت، سٹریٹ لائٹس، بحالی کا کام اور دیگر روزمرہ اخراجات کے لیے کوئی بجٹ موجود نہیں ۔ ( یہ واحد و مکمل سچ ہے جناب تو بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بیوروکریسی اور عدلیہ کی خصوصی ذمہ داریوں میں شامل ہیں جنھیں وہ بلدیہ ہوٹل بند کرانے اور بلدیہ پلازہ اور پارکنگ پلازہ کے کمزور ترین کردار و گفتار پر متنازع بنادیتے ہیں )
5۔ چند سال قبل کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تمام ٹاؤنز اور ضلع کونسل کے تمام وارڈز کو میٹرو پولیٹن میں ضم کر دیا گیا لیکن اس کے لیے درکار فنڈز ہی مہیا نہ کیے گئے۔سارا بوجھ پہلے سے خستہ حال میٹرو پولیٹن پر ڈال دیا گیا۔
( حالانکہ اصولی طور پر وہ سیٹ اپ اب تک فنکشنل نہیں ہوا ہے اگرچہ بہت ہی خوبصورت اور دلکش قانون سازی کی گئی ہے)
کام کا پریشرکئی گنا بڑھ گیا لیکن بجٹ منجمد رہا اور اس میں کسی طرح کا اضافہ نہ ہوا۔
حالانکہ لوکل گورنمنٹ فناس کمیشن نے فنڈز بڑھانے کے لئے ضروری کردار ادا کیا ہے ـ
ایک یہ اعتراض مسلسل دہرایا جاتا ہے کہ محکمے کو کچلاک اور نواکلی کی صفائی سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ سوچنے کی بات ہے کہ فنڈز کی عدم دستیابی سے محکمہ کیسے خوش اسلوبی سے کام کر سکتا ہے ۔ ( حالانکہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن نے جناح روڈ ، سول ہسپتال ، سائنس کالج سول سیکرٹریٹ زرغون روڈ کی مکمل صفائی بھی نہیں کی ہے بلکہ مری آباد اور علمدار روڈ کی طرح خود کار نظام تشکیل دینے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں)
حقیقت یہ ہے کہ میٹرو پولیٹن کے افسران، اہلکار اور مزدورنہایت جاں فشانی سے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں بلاشبہ اس جذبۂ بے اختیارِ شوق کی کوئی قیمت ادا نہیں کی جاسکتی۔یہ جنوں پیشہ افراد ہمارے محکمے کا فخر ہیں ۔ ( ناموں کے بحث و مباحثہ سے اوپر اٹھ کر شہر کوئٹہ میں تمام تماشوں اور مافیاز و نااہل نمائندگی کی ذمہ داری میونسپل کارپوریشن کے اہلکاروں پر پڑتی ہیں)
مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ یونینز کے مطالبات کو لے کر میں کسی حد تک جانب دار رہا ہوں ۔ اب میٹروپولیٹن کو درپیش مسائل کا بغور جائزہ لینے پر مجھے اندازہ ہوا ہے کہ ورکرز کس قدر گھمبیر مسائل کا شکار ہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ اس دگرگوں صورتحال سے کیسے نمٹا جائے ؟میٹرو پولیٹن کو درپیش مسائل سےکیسے نبرد آزما ہوا جائے؟ شہر میں صفائی ستھرائی کے ساتھ ساتھ مثالی نظم و نسق کو کیسے یقینی بنایا جائے؟ وزیراعلیٰ کے وژن کے مطابق خوب سے خوب تر کا واحد راستہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ہے۔مریض اگر وینٹی لیٹر کا متقاضی ہو تو اسے فی الفور بچانے کی سعی کی جاتی ہے نہ کہ کاغذی کارروائی میں الجھ کر کسی بھی طرح کی تاخیر کا خطرہ مول لیا جاتا ہے۔ ( حالانکہ یہ کاغذی ھیر پھیر بھی بیوروکریسی کی چالبازیوں و بدنیتی کا گھٹ جوڑ ہی ہیں)
بعینہ میٹروپولیٹن کو بھی فوری ایکشن کی ضرورت ہے۔کیوں کہ محکمہ اس وقت دفتری پیچیدگیوں ، قانونی مُوشگافیوں اور سُرخ فیتے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ سرکاری ملازمین پر احتساب کے مختلف محکموں کی تلوار لٹکتی رہتی ہےجو کام کی تکمیل میں بے جا تاخیر کی کلیدی وجہ ہے۔
جدید دنیا نجکاری کی طرف بڑھ چکی ہے اوردنیا بھر کی حکومتیں ریگولیشن اور سہولت کاری پر توجہ دے رہی ہیں کیونکہ روایتی طریقوں سے کام کرنے والے سرکاری محکمے کبھی بھی نجی شعبوں سے زیادہ مؤثر نتائج مہیا نہیں کر سکتے۔لہٰذا میٹرو پولیٹن کے مسائل کا حل بھی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ساتھ منسلک ہے۔ جتنی سُرعت سے ہم اس سنگِ میل کو عبور کر یں گے ، اُتنی ہی تیزی سے ہم ترقی کے زینے طے کریں گے۔( نہیں جناب با اختیار اور با صلاحیت بلدیاتی اداروں کی تشکیل و تعمیر نو ہی میونسپل سروسز کی بحالی کا واحد و مکمل اختیارات کے تحت مضبوط و مستحکم راستہ ہے)،،
یہ ہے یوم آزادی کے موقع پر کمشنر کوئٹہ کے خیالات ،
جس نے انتظامی مشینری کی ناکامی کا اعتراف کیا ہے اور میٹرو پولیٹن/میونسپل کارپوریشن کوئٹہ کو بھی پانچ ماہ سے کنگھال کرتے ہوئے یرغمال بنایا ہے قوموں کی ترقی و خوشحالی کا دارومدار اسی طرح کے شاہانہ انداز آفیسر شاہی پر ہوتا ہے –
محمد حمزہ شفقات ،
کمشنر کوئٹہ کے تفصیلی تجزیہ و تبصرہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی
انتہائی قابل افسوس ہیں ـ؟؟؟میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے اربوں کھربوں روپے کے اثاثوں و ممکنہ آمدنی جمع کرنے کا آپ نے ذکر مناسب نہیں سمجھا ہے ـ
بلدیاتی ایکٹ کے تحت میٹرو پولیٹن کارپوریشن کوئٹہ کو 38 قسم کے ٹیکس عائد کرنے اور جمع کرنے کا اختیار و مینڈیٹ رکھنے کے باوجود انھیں آفیسرز و عملے کی موجودگی میں
کنگھال کیوں کر رہ گیا ہے ؟؟؟
میونسپل کارپوریشن خود ایک مجاز اتھارٹی یعنی منی حکومت ہے اپنے آپ میں ،میونسپل سروسز کی فراہمی اور مناسب عوامی مینڈیٹ رکھنے کے بجائے عام آدمی کی غلط فہمیوں کا شکار یہ ادارہ صرف نجکاری سے درست نہیں ہوسکتا ہے بلکہ کارکردگی اور انسانی نفسیات و ذہانت کی تعبیر و تبادلہ خیال ممکن بنانے سے درست سمت اختیار کرسکتا ہے ـ
بلدیاتی انتخابات کا
انعقاد نہ ہونا ایک المیہ در المیہ ہے جس میں بیوروکریسی و نمائندگان دونوں شامل ہیں ججز و اشرافیہ کے نخروں کے ساتھ
آپ نے اپنے پانچ ماہ کے عرصے میں عوامی اقدامات اٹھانے کے بجائے عام آدمی کے مفادات و حقوق کے تحفظ و کامیابی حاصل کرنے کے بجائے انتظامی مسائل کا رونا پیٹنا ہی مناسب سمجھا اور لکھا ہے ،
حل نجکاری نہیں ہے یہ
مقدمہ بری طرح ناکام رہا ہے ، صرف با اختیار اور با صلاحیت بلدیاتی اداروں کی تشکیل و تکمیل ہی زندگی میں راحت فراہم کرسکیں گے اور میونسپل سروسز کی بحالی ممکن العمل ہوسکے گا اگرچہ کوئٹہ میں صوبائی حکومت کے پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ یونٹ کا عملہ و طریقہ کار مناسب ہے مگر نجکاری کی دوا و کاروبار ہر سطح پر کامیاب نہیں ہے
آپ نے پی ڈی ایم اے کا ذکر خیر اپنے تحریر مبارکہ میں نہیں کیا ہے جس کا میٹرو پولیٹن کارپوریشن کوئٹہ اور بلدیاتی اداروں کے ساتھ کوئی لنک نہیں بنتا ہے سوائے پیسے ضائع کرنے کے علاؤہ ـ؟؟
ھائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کے مطابق بامقصد و نتیجہ خیز بلدیاتی اداروں کی تشکیل و تعمیر نو کے لئے 30 فیصد سے زائد وسائل بلدیاتی اداروں کے لئے منتقل کرنا ضروری ہے پھر بھی آپ مایوسی اور بیزاری و احساس کمتری کے شکار ہو کر نجکاری کے ناکام دوا و کاروبار کو شفا ء قرار دیتے ہیں جناب ؟؟؟ملازمین و یونینز کی تعریف و توصیف بجا طور پر معاشرتی و سماجی شعور کی بیداری اور انسانی زندگیوں میں بہتری و توانائی لانے کا وسیلہ نہیں بن سکا ہے جناب اس کی کیا تشریح فرمائیں گے آپ!!
اب آپ کے ارادے اور عمل میں کوئی مثبت و توانا تبدیلی کی امید رکھیں یا آپ جمہوری و احساس دردمندی کے مکالمے و ڈائلاگ پر مشتمل ماحول و کاروبار کی تشکیل و تکمیل نو پر یقین رکھتے ہیں یا مزید پانچ ماہ وزیر اعلیٰ صاحب بہادر کی قیادت میں کوئٹہ کے لاکھوں انسانوں کے خدمت گزاری کے بجائے مغالطوں و حقائق سمجھنے کے بجائے الٹی سیدھی تعبیرات چن کر ضائع فرمائیں گے ـ؟ہم کوئیٹہ کے چالیس پچاس لاکھ شھری بلدیاتی اداروں کے متعین آئینی و قانونی حیثیت بحال رکھنے اور میونسپل سروسز کی بحالی کے میکنزم تشکیل دینے کا حوصلہ و عزم اور طریقہ کار و ذہانت رکھتے ہیں ـ