ملک کے بڑے اور دور دراز علاقوں پر مشتمل بلوچ و پشتون قوم کے مسکن بلوچستان پر قیامت صغریٰ گذرتی رہتی ہے البتہ وفاق و پنجاب اور کشمیر و پشاور کا اشرافیہ کم ہی آگاہ رہتے ہیں. اگست کا مہینہ آسیب کی طرح مہنگا ہی رہتا ہے۔ قریب کے پچھلے دو عشروں میں نواب اکبر بگٹی کی قتل و غارتگری بھی اگست 2006 ء میں ہوئی تھی اور ایک بڑا تاریک و سیاہ ترین واقعہ سانحہ وکلاء سول ہسپتال کوئٹہ 08 اگست 2016ء کو پیش آیا جس کی ہر برسی پر کوئٹہ میں بڑی محفل و جرگہ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ڈائیلاگ و سیمنار کے مرکزی نکتہ کے طور پر یہ احساس تھا کہ معاشرتی ترقی و امن کے لئے نئے سماجی شعور اور عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے، آئین و وفاق دونوں ازکار رفتہ ہوچکے ہیں جو یقینی طور پر معاشرتی و سماجی شعور کی آبیاری میں ترقی و خوشحالی لانے کا وسیلہ ثابت نہیں ہورہے ہیں۔ کوئٹہ وکلاء سانحے سے توانائی پیدا کرنے کے لئے شعوری ارتقاء و کتاب دوستی کا سفر شروع کیا ہیں بلوچستان و خیبر پختونخوا میں جبر و وحشت ناک صورتحال قبول نہیں کیا جا سکتا ہے ، باڈر ٹریڈ پر واضح ترجیحات نہ رکھنے سے صوبہ میں گوادر و چمن جیسے واقعات کا تسلسل نہیں روکا جائے گا ،
کوئٹہ بلوچستان کی مجموعی بصیرت و بصارت میں اضافے اور ملک و ملت کی ترقی و خوشحالی کے لئے نئے سماجی شعور اور معاہدہ عمرانی کے قابل عمل تصورات کی احیاء ضروری ہے ورنہ سماجی و شعوری قحط کے باعث معاشرتی و معاشی تنزلی کا راستہ نہیں روکا جاسکتا ہے سانحہ وکلاء سول ہسپتال کوئٹہ نے کتاب دوستی اور فکری و علمی مکالمے کے لئے ضروری کردار ادا کیا ہے جمہوری مزاحمت اور شعوری ارتقائی مراحل سے گزر کر ہی معاشروں میں رائج جمود و احساس کمتری ختم ہو کر رہتا ہے اظہار شھید باز محمد کاکڑ فاؤنڈیشن رجسٹرڈ نے اسی احساس و ادراک کے تحت پیچلھلے آٹھ سالوں میں مجلس فکر و دانش علمی و فکری مکالمے کے اشتراک سے اشرافیہ و کمزور ترین شعوری ارتقائی سفر اور مافیاز و نااہل نمائندوں سے گھٹ جوڑ کے بجائے کتاب و علم دوستی ہی زندگی ہے اور لائبریریوں کے جال بچھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان و بلوچستان کی مختلف الخیال سیاسی جماعتوں اور وکلاء رہنماؤں سمیت تمام طبقات کو اس کا ادراک کرنا چاہیے نےکہ سانحہ 8اگست جیسے واقعات نے بلوچستان کو مزید پسماندگی کی طرف دھکیل دیا ہے واقعے کی تحقیقات کیلئے بنائے گئے جوڈیشل کمیشن کی سفارشات پر آج تک کیوں عمل درآمد نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھئے:
ہمارے آئین کا ”بنیادی تقاضا”__ اور برطانوی عدالتیں
ایک فتنے کی محبت میں پاکستان میں مداخلت
اسماعیل ہنیہ کی شہادت، حکومت اپنا رویہ تبدیل کرے
کیسا ہو گا بنگلہ دیش حسینہ واجد کے بعد؟
جب تک ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی تب تک ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتی۔ بلوچستان اور خیبر پشتونخوا میں جو صورتحال پیدا کی جا رہی ہیں۔ یہ نیک شکون نہیں ہے۔ عدلیہ اور پارلیمنٹ اب ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ بلوچستان کے وکلاء نے شہداء کے ساتھ ساتھ آئین و قانون کیلئے طویل جدوجہد کی ہے پشتون اور بلوچ عوام سیاسی رہنماؤں اور وکلاء نے جو قربانیاں دی ہے اور رائیگا ں نہیں جائے گی۔ اس مجلس و محفل میں شریک شہید باز محمد کاکڑ فاؤنڈیشن رجسٹرڈ کے چیئرمین ڈاکٹر لعل محمد کاکڑ،نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر و سابق وزیر اعلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، مجلس فکر و دانش علمی و فکری مکالمے کے سربراہ عبدالمتین اخونزادہ ،سابق گورنر بلوچستان ملک عبدالولی کاکڑ ،پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء ممبر قومی اسمبلی شیر افضل خان مروت،بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء ثناء بلوچ،پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے مرکزی چیئرمین عثمان خان کاکڑ شھید کے صاحب زادے خوشحال خان کاکڑ،عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی، جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبد الحق ہاشمی ، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے صوبائی صدر احمد جان ،پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر داؤد شاہ کاکڑ ،جمعیت علماء اسلام کے رہنما و سابق وفاقی وزیر رحمت اللہ کاکڑ، مجلس فکر و دانش علمی و فکری مکالمے کے سربراہ و شھید باز محمد کاکڑ فاؤنڈیشن رجسٹرڈ کے سیکرٹری ، بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر محمد افضل حریفال ، ، فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ممبر قومی اسمبلی چنگیز خان کاکڑ، ملک امان اللہ کاکڑ،پی ٹی آئی کے ذولخہ مندوخیل سمیت دیگر رہنماؤں نے شہید باز محمد کاکڑ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام مقامی ہوٹل میں سانحہ 8اگست کے شہداء کے سلسلے میں منعقدہ قومی ڈائلاگ و سیمینار میں شرکت و اظہار خیال کیاـ
اس موقع پر سانحہ8اگست 2016 ءکے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ سانحہ 8اگست میں بلوچستان کے 72سے زائد وکلاء،صحافی اور عام شہری شہید ہوئے اور ان کے قربانیوں کو رائیگا نہیں ہونے دینگے،کیونکہ دہشتگردوں نے اُن وکلاء کو شہید کیا جو بلوچستان کے مستقبل کے معمار تھے اور مستقبل میں ان کے بڑی توقعات تھے مگر بد قسمتی سے دہشتگردوں نے وکلاء کو شہید کر کے یہ پیغام دیا کہ بلوچستان کو ہمیشہ پسماندہ رکھے گے مگر جس طرح ہمارے اکابرین نے طویل جدوجہد کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ کبھی بھی اصولوں پر سودا بازی نہیں کی اور وکلاء نے بھی ان کے نقش قدم پر چل کر جانوں کے نظرانیں پیش کئے مگر اصولوں کے سیاست پر سودا بازی نہیں کی 8اگست2016ملکی تاریخ کا سیاہ دن ہے،دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بلوچستان اور خیبر پشتونخوا کو زندہ لاش بنا دیا ہے اب حکمرانوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بلوچستان اور خیبر پشتونخوا کے عوام کے حقوق کیلئے جدوجہد کریں انہوں نے کہا کہ سانحہ 8 اگست ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، جس کو کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ آٹھ سال قبل اس دن ہمیں 70 سے زائد پڑھے لکھے اور باشعور ساتھیوں کی لاشیں دی گئیں تھی۔ اس دن کی مناسبت سے بلال انور کاسی، باز محمد کاکڑ سمیت تمام شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اس سانحے سے بلوچستان کی وکلاء برادری میں پیدا ہونے والا خلا آج تک پر نہیں کیا جاسکا۔ ان وکلاء کی شہادتیں پاکستان کے قانون و انصاف کے نظام پر ایک بدنما داغ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بتایا جائے کہ واقعے کی تحقیقات کیلئے بنائے گئے جوڈیشل کمیشن کی سفارشات پر آج تک کیا عمل کیا گیا؟ رپورٹ میں نیشنل ایکشن پلان پر کمزور ریاستی پالیسی اور عمل درآمد میں غفلت کی نشاندہی کی گئی تھی۔ کیا آج تک ذمہ داریوں سے غفلت کرنے والے کسی ایک شخص یا ادارے کے خلاف کارروائی ہوئی؟ یہ ایک المیہ ہے کہ ان وکلاء کے ساتھی اہم منصبوں پر ہوتے ہوئے بھی آج تک انہیں انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے پاس سیاسی معاملات میں مداخلت اور مخصوص شخصیات کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے ہمیشہ وقت ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اپنے ساتھیوں کو انصاف فراہم کرنے کیلئے کوئی بھی آواز نہیں اٹھارہا۔ سانحہ 8 اگست کے وکلاء کا خون چیف جسٹس آف پاکستان سمیت پوری عدلیہ پر قرض ہے۔ کیا عدلیہ میں اتنی سکت تک نہیں کہ اپنی ہی جوڈیشنل رپورٹ کی سفارشات پر عملدرآمد تک کراسکے۔ توقع کرتے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسی ان شہداء کے اہل خانہ کو ہر قیمت پر انصاف فراہم کریں گے۔ریاست آج بھی ڈیپ سٹیٹ پالیسی پر گامزن اور دہشتگردی کے خلاف غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ ریاستی بے حسی نے پختونخوا اور بلوچستان کے عوام کو دہشتگردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ آج بھی یہی ریاستی ناکامیاں ہمارے لوگوں کو روز مرہ کی بنیاد پر خون میں نہلا رہی ہیں۔ حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں، حکومت اور ریاست اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام ہیں۔ ریاستی غیر سنجیدگی عوام کو عدم تحفظ کا شکار اور آنے والی نسلوں کو مایوسی میں دھکیل رہی ہے۔
دہشتگردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے سب کا موقف بالکل واضح ہے۔ دہشتگرد خواہ کسی بھی مذہب، رنگ اور نسل کا ہو، اس میں گڈ اور بیڈ کی کوئی گنجائش نہیں۔ دہشتگردوں اور انکے سہولت کاروں کی سزا نیشنل ایکشن پلان میں موجود ہے۔ ریاست اگر واقعی سنجیدہ ہے تو نیشنل ایکشن پلان پر نیک نیتی کے ساتھ من وعن عمل یقینی بنائے۔پالیسیوں پر نظرثانی نہ کی گئی اور سنجیدہ اقدامات نہ کئے گئے تو حالات مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔
اس موقع پر نوجوانوں و خواتین سمیت تمام طبقات کی بڑی تعداد موجود تھی شعراء نے نظم پیش کئے پروگرام میں شھید باز محمد کاکڑ ایوارڈ بھی تقسیم کیا گیا اسٹیج سیکٹری کے فرائض محترمہ اقصیٰ غریشن کی قیادت میں گروپ نے سر انجام دئیے اور ڈائلاگ و سیمنار کے انتظامات شھید باز محمد کاکڑ فاؤنڈیشن رجسٹرڈ کے رضاکاروں اور طلبہ و طالبات نے اکرام اللہ خان کاکڑ کی’ قیادت میں خوش اسلوبی سے انجام دئیے جبکہ اس موقع پر ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی کہ پاکستان و خطے میں ٹیکنالوجی و لمحہ موجود میں معاشی و سائنسی بیانیے کی تشکیل و تعبیر نو کے لئے ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز مل کر نئی سائنسی بیانیے کی تشکیل و تعبیر نو کے ساتھ ساتھ اسلام کی تعبیر و تشریح کا راستہ ہموار کرنے کا فیصلہ کیا جائے##