انقلابات زمانہ میں بیسویں صدی میں دنیا کے نقشے پر بڑی اور واضح تبدیلیاں نظر آئیں بہت سی قوموں کو آزادی نصیب ہوئی پاکستان بھی ان میں سے ایک ہے لیکن پاکستان کی بنیاد بالکل منفرد اور جدا گانہ تھی کیونکہ یہ وہ واحد ملک ہے جو ایک مضبوط آفاقی نظریے کے تحت وجود میں آیا اور اس نظریے کی اساس دین اسلام ہے۔اقبال نے مسلم امت کی اساس کے حوالے سے حقیقی تصور اپنے خصوصی لیکچرز میں دیا گیا ہے جس کی جھلک اشعار میں پیش نظر رہتا ہے:
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
قائد اعظم نے مقاصد پاکستان کی وضاحت کئی عوامی جلسوں کے دوران اور تخلیق پاکستان کے بعد مختلف مواقع پر انتہائی واضح انداز میں کی ایک موقع پر آپ نے کہا ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں ۔ لیکن بدقسمتی سے عوام اس تجربے کے لئے منتظر ہی رہے کیونکہ وہ بنیادی تصورات اور سیاسی میکنزم تشکیل دینے میں کامیابیاں بطور ریاست و معاشرہ حاصل نہیں کرسکے_
یہ بھی دیکھئے:
مارچ 1948 کو ڈھاکہ میں خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا کہ ہمیں بنگالی،پنجابی،سندھی،بلوچی اور پٹھان کے جھگڑوں سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہئے ہم صرف اور صرف پاکستانی ہیں۔اب ہمارا فرض ہے کہ پاکستانی بن کر زندگی گزاریں لیکن اپنی نسلی قومیتی شناخت و معرفت سے اوپر اٹھنے کے لئے نئے پیراڈایم میں عمرانی ارتقاء و سماجی شعور اور انصاف و ترقی کی نقشہ گری مطلوب ہیں وہ ابھی تک ریاست و قیادت کے سطح پر واضح فریم ورک میں دستیاب نہیں ہیں جس کے باعث معاشرتی ترقی و خوشحالی اور فرائض و اختیارات میں توازن و اعتدال ناپید ہو چکا ہیں.
یکم جولائی 1948 کو قائد نے سٹیٹ بینک کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے ناقابل حل مسائل پیدا کئے ہیں اور یہ لوگوں کے درمیان انصاف قائم کرنے میں ناکام رہا ہے ہمیں دنیا کے سامنے ایک ایسا معاشی نظام پیش کرنا چاہیے جو اسلام کے صحیح تصور مساوات اور سماجی انصاف کے اصولوں پر مبنی ہو۔
اب تک حالت زار یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت سپریم کورٹ میں چیلنج کے ساتھ موجود ہے حالانکہ سود و دانش مندی کی کمی نے مجموعی طور پر قومی و ملی آرزوؤں اور تمناؤں کا خون کیا ہوا ہے سود کے مفاسد کے باعث معاشرتی ترقی و خوشحالی اور امن و سلامتی غارت گری کا نشانہ بن گئے ہیں غربت و پسماندگی اور وسائل و توانائی میں تقسیم در تقسیم نے نسلوں کے لئے نئے زاویے سے درپدری اور بد انتظامی ہمارے سروں پر مسلط کی ہیں
یہ وہ چند اقتباسات ہیں جو قائد اعظم کے مطابق حصول پاکستان کی جدوجہد اور تخلیق کا مؤجب بنے اور آج کے پاکستانی کو اپنے آباؤاجداد کی قربانیوں کی وجوہات سے متعارف بھی کرواتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران خان کی تقریر: تین مغالطے، تین ناکامیاں
مولانا طارق جمیل ایسے کیوں ہیں؟
خدانے اس قیادت کو خاص طور پر جہد پاکستان کے لئے پروان چڑھایا اور ان قائدین کو وہ نظر عطا کی جو ملک میں سیاسی ابتری،فرقہ واریت اور کمزور معاشی نظام سے پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ لگا چکی تھی ۔48میں کیے جانے والے ڈھاکہ کے خطاب نے71میں اپنی اہمیت کو واضح کر دیا۔۔75سالوں میں صرف ایک جمہوری حکومت اپنی مدت پوری کرسکی سیاسی و معاشی ابتری کی اس سے کھلی مثال نہیں مل سکتی آئی ایم ایف کا چنگل ہماری معاشی کمزور حکمر عملیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ہمارے ملک میں تمام حکومتیں کسی نہ کسی انداز میں پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کی کوشش کرتی رہی ہیں کبھی قرار داد مقاصد کی صورت میں تو کبھی دساتیر پاکستان کی تخلیق کی صورت میں اور کبھی آئین میں ترامیم کی شکل میں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ہم نے اپنے مقاصد کا تعین کر لیا ہے تو کیا ہم ان کے حصول میں کامیاب رہے ہیں؟
کیا ہم اپنی تہذیب کو مکمل اسلامی سانچے میں ڈھال سکےہیں؟کیا ہم اپنے مذہبی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ؟کیا ہم اپنے تعلیمی،معاشرتی ،معاشی، سیاسی،دفاعی مقاصد کو مستقل بنیادوں پر کوئی شکل دینے میں کامیاب ہو سکے ہیں ؟کچھ سوالات کے جوابات ملکر تلاش کرتے ہیں جیسے کہ کیا ہمارا تعلیمی نظام وہ لوگ پیدا کر رہا ہے جو ملک کو خود کفالت کی طرف لے جا سکیں؟تو یقینا یہ سوال ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری کوئی تعلیمی پالیسی ہے ہی نہیں جو مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کی اہل ہو نہ ہم ٹیکنالوجی کی دوڑ میں شامل ہیں نہ ہی اس حوالے سے ہمارےنظام میں کوئی اصلاحات اور توجہ دکھائی دے رہی ہے.سن اڑتالیس سے شروع ہونے والی تعلیمی پالیسی اکہتر میں مشرقی بازو کو الگ کرنےکا باعث ثابت ہوئی مقاصد کے حصول کے لئے تعلیمی پالیسی تشکیل دے کر اسے لمبے عرصے تک لاگو رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے پھر جا کر کامیابی کا دعوہ کیا جا سکتا ہے یا اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں ۔۔
معاشرتی سطح پر لوگوں کے مسائل کے حوالے سے جن بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کی بات قرار داد مقاصد میں کی گئی وہ بھی کوئی خاص شکل اختیار نہ کر پائی قیادت باہمی چپقلش کی زد میں رہی اورعوام کے حالات ابتر ۔وبائیں ہوں موسمی آفات ہوں یا سیاسی منظر نامہ عوام کشمکش کا شکار ہو جاتی ہیں، کس پر اعتبار کرے اور کس پر نہ کرے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے تک پلانے کے بارے میں لوگ شک و شبہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔کرونا ویکسین کے حوالے سے بھی ابہام موجود رہا۔سیلاب زدگان ہر سال نقصانات کا شکار ہوتے ہیں لیکن تاحال اقدامات نہیں کئے جا سکے جن سے آئندہ کے لئے نقصان سےبچا جا سکے۔
معاشی سطح پر گھر چکے ہیں آئی ایم ایف کی مدد کےبنا چارہ نہیں ہے اور اپنا معاشی نظام سود در سود میں جکڑا ہوا ہے ۔
دفاعی مقاصد جو ہماری مجبوری ہیں اللہ کے کرم سے ہم ایک ایٹمی طاقت بن چکے ہیں اسلامی پہلو سے دشمن کے مقابلے کی تیاری کا جو درس ہمیں دیا گیا ہے اس پرالحمد للہ پورا اتر چکے ہیں اور عالمی سطح پر ایک خاص اہمیت کے حامل ملک کی صف میں شامل ہیں لیکن معاشی سطح پر محتاج ہو کر ہم اپنے دفاعی مقاصد بھی نہیں حاصل کر سکتے ۔
آج ضرورت ہے کے تمام طبقات عمل و فکر ملکر بیٹھیں اور پچھتر سالہ تاریخ کو دیکھیں اور سمجھیں پھر ایسا لائحہ عمل طے کریں جسے بدلنے والی حکومتوں کی بجائے ایک مظبوط اسٹیبلشمنٹ چلائے تاکہ پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہ سکے اور ملک کے طویل عرصہ مقاصد کو حاصل کیا جا سکے۔
تو بنیادی سوال اب بھی یہی ہے کہ ”مقاصد پاکستان کے ادھورے سفر کی تکمیل کیسے ممکن ہے
”قاٸداعظم محمد علی جناح نے تو فر مایا“کہ ”پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جس دن پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا“
برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں نے پاکستان کا خواب تو اسی دن دیکھنا شروع کر دیا تھا جب جنگ آزادی کے بعد ان پر عرصہ حیات کے تنگ کر دیا گیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ دوقومی نظریہ کی بنیاد سر سید احمد خان نے رکھی تھی۔جو عالم، مفکر اور فلسفی تھےمگر مسلمانوں کو سمت کا تعین کرنے اور جدوجھد آزادی کے لئے متحد ہونے میں پورا سو سال کا عرصہ لگا ۔جب قومیں عمل و عزم کی دولت سے خالی ہو جاٸیں اور اپنے کوتاہیوں کو سدھارنے کی بجاۓ اس کا جرم دوسروں کے کھاتے میں ڈالتی ہیں تو منزل کی جانب سفر اور بھی مشکل اور سسست ہو جاتا ہے۔
تحریک پاکستان سے قیام پاکستان تک کا سفر ایک بہت ہی کھٹن اور صبر آزما مرحلہ تھا ۔ جو یقینی طور پر قومی آزادی کے تمام تحریکوں میں پیش نظر رکھا جاتا ہے
مگر اپنے لئے ایک اسلامی مملکت کا خواب دیکھنے والوں کی آنکھیں آزادی کے خواب کی تکمیل سے ابھی تک چمک نہیں رہی ہیں ۔جیسے جیسے مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا انکا عزم اور بھی جوان ہوتا گیا ۔
انکے سامنے اپنی ثقافت کی پہچان، اپنی مذہب کی حفاظت ،اپنے زبان وادب کی بقا،قومی تشخص اپنا قومی ورثہ اور اپنا نظام تعلیم ایسی چیزیں تھیں جن کی حفاظت کے لئے برطانوی سامراج کے ساتھ ساتھ ہندو راج پاٹ سے آزادی بھی ضروری تھی۔
قیام پاکستان کےفورا بعد مہاجرین کی آبا د کاری کا مسٸلہ اتنا بڑا تھا کہ آٸین پاکستان کی طرف توجہ ہی نہ دی جا سکی۔
جب ابتدائی مساٸل پر قابو پا لیا گیا تو پھر وزیراعظم پاکستان نے دستور سازی سے قبل قراردار مقاصد کے نام سے ایک دستاویز قومی اسمبلی کے سامنے پیش کی ۔پاکستان کی سرکاری دستاویزات میں اس دستاویز کو تقدس کا درجہ حاصل ہے۔پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے جب یہی دستاویز منظور کی تو اس پر ایک تبصرہ زبان زد عام ہوا۔
”آج ریاست کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئی ہے“
معاشروں میں بعض اوقات ایسی باتیں بھی عام ہو جاتی ہیں جن کی ذمہ داری کوٸی نہیں لیتا۔یا اس کے کہنے والے کو بھی اس کی خبر نہیں ملتی۔
آواز خلق یا نقارہ خدا شاید ایسی ہی باتوں کے لئے کہا جاتا ہے۔قرارداد مقاصد کے بارے میں یہ خیال اتنا بھی بے بنیاد نہیں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس کی جڑیں ملتی ہیں۔
اس قرارداد میں اس بات کا اقرار کیا گیا تھا کہ حاکمیت صرف اللہ تعالی کی ہے اور ریاست کا پبلک لا جمہوریت، آزادی، معاشرتی انصاف اور رواداری کے اصولوں پر مبنی ہو گا ، جو اسلام نے مقرر کئے ہیں ریاست کی ذمہ داری یہ ہوگی کہ وہ مسلمانوں کو اس قابل بناۓ کہ وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن وسنت کے مطابق منظم کریں۔جب یہ قرارداد پیش کی گٸی تو اسمبلی کے اندر سے اس پر فوری طور پر
کے لئے کئی اعتراضات اٹھاۓ گئیے۔کہ بانی پاکستان محمد علی جناح نے وعدہ کیا تھا کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگی۔ اس پرقاٸداعظم کےقریبی ساتھی سردار عبد الرب نشتر نے تقریر کی اور کہا کہ قاٸد اعظم نے بتایا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہو گی۔
جب سے قرارداد منظور ہوٸی اس کے خلاف ایک تسلسل سے پروپیگنڈہ جاری ہے۔لبرل سیکولر لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں ان ناقدین اسے اقلیتوں کے حقوق کے منافی خیال کرتے تھے اور قیام پاکستان کو ایک افسانہ خیال کرتے تھے۔
ایسا معاشرہ جہاں مختلف قومیں آباد ہوں وہاں ہم آہنگی اور سمن سکون اخلا ق سے حاصل ہو سکتا ہے یا قانون سے۔
اخلاق ہی دین کا دوسرا نام ہے۔ یہ عام معاشرتی و سماجی شعور کی نشاندھی ہے معاشرتی سطح پر ، مگر پاکستان کی نامور شخصیت عالم و محقق جناب احمد جاوید لکھتے ہیں کہ
,,اجتماعیت کی تشکیل کا عمل
اخلاقی اصول پر ہوتا ہے _
یہ اخلاقی شعور ہی ہے جو
فرد کو باور کرواتا ہے کہ وہ
اجتماعی وجود بھی ہے _
اخلاقی اصول اور اقدار اگر
صرف چند انفرادی رویوں اور
طرزِ عمل تک محدود ہو جائیں
اور معاشرت میں ان کا کوئی موثر کردارنہ رہ جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اجتماعیت کو اس کی مسلمہ بنیادوں پر
قائم کرنے یا رکھنے والی قوتیں بہت کمزور پڑ گئی ہیں _،،،
( ٫٫اخلاق، علم اور طاقت ،، میں سے)ماخوذ اصلاحی باتیں
مرشد عصر علامہ احمد جاوید
اہل مغرب نے وطن کی بنیاد
رنگ ونسل اور جغرافیائی حدود پر رکھی ہے جب کہ مسمانوں کی قومیت ایک نظریاتی قومیت ہے جو کلمہ طیبہ پر قاٸم ہے اسی جداگانہ تصور اسلامی قومیت کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔
نظریاتی طور پر پاکستان میں اسلامی زندگی اورقدروں کا تصور بنیادی حثیت رکھتا ہے۔اخوت،مساوت،عدل،دیانت،خدا ترسی، انسانی ہمدردی اور عظمت کردار نظریہ پاکستان کے بنیادی جز تھے۔
نظریہ پاکستان کا مقصد پاکستان کو ایک اسلامی اور فلاحی ریاست بنا نا تھا ۔مگر آج پچھتر سال گزرنے کے بعد بھی ہم اندرونی اور بیرونی سازشوں کی وجہ ان مقاصد کے حصول میں نا کام ہیں ۔۔۔۔ جب تک بنیادی طور پر ہم اسلامی نظریاتی بنیادوں پر استوار معاشرتی و سماجی شعور اور آگاہی و دانش مندی کی پوری تحریک بپا نہیں کرتے ہیں ممکن نہیں ہے کہ ہم نظریہ اسلام کے مطابق پالیسیاں و اقدامات تجویز کرسکیں پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل آئینی و دستوری ادارہ ہے مگر اس کی سفارشات پیش کرنے اور عمل درآمد ممکن بنانے کے لئے نئے عمرانی ارتقاء و فکری مکالمے کے سلسلے میں مفید اور وسیع نظام زندگی و سماجیات کے امکانات و لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ابھی پوری طرح موجود ہے اس لئے ضروری ہے کہ اب نصف سے زیادہ بلکہ 75 ویں یوم آزادی کے موقع پر ریاست مدینہ کے شور میں مقتدرہ و اشرافیہ نظام زندگی و عظمت اسلام کا پاس رکھتے ہوئے عمل و کردار اور تعمیری و ترقیاتی اپروچ اختیار کرنے کا فیصلہ کریں ورنہ تبدیلی اور ممکنات کے مواقع ضائع ہو جاتے ہیں اور قومی و ملی روایات و امنگوں کا فسانہ سنانے کے لئے تاریخ کا جبر بار بار موقع نہیں دیتا __