شہباز شریف نے نواز شریف کی پیروی نہیں کرنی ہے عمران خان کے ہٹنے سے پنجاب کے تجربہ کار وزیر اعلیٰ یعنی خادم اعلیٰ ملک کے وزیر اعظم بنے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ نواز شریف کے بھائی ہے اور بہت فرمانبردار بھائی ہے اس وقت جب سب لوگ شہباز شریف کو مشورے دے رہے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ وزیراعظم صاحب ترجیحات کا تعین کرلیں جس طرح اپنے منصب سنبھالنے کے پہلے دن یعنی 12 اپریل 2022ء کے دن ہی شہباز شریف نے عملی طور پر ترقی و پیشرفت کے لئے نئے سوچ و عمل کے ساتھ قدم بڑھایا ہے
یہ بھی دیکھئے:
https://www.youtube.com/channel/UC3hqpJesbeMpxFRrJ3xDM_A
لیکن پاکستان صرف لگ بھگ 80 / 90 لاکھ ملازمین کا ملک نہیں ہے بلکہ 24/23 کروڑ انسانوں کا سمندر ہے ابادی کا اس لئے جناب عمران خان نے بھی اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر جناب عشرت حسین کی سربراہی میں سادگی اور ترقی کے لئے کمیشن بنایا تھا خدارا اس طرح کے مذاق نہ اڑائیں عوام اور اشرافیہ دونوں کے لئے صحیح ترتیب و تشکیل زندگی مطلوب ہے سات عشروں کی بربادیوں کے بعد، خرابیوں کی ابتدا عمران خان نے نہیں کیا ہاں عمران خان اپوزیشن لیڈر کے طور پر تقریر خوب کرتے تھے لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد تشخیص و علاج میں کامیابیاں حاصل نہیں کرسکے البتہ شہباز شریف کا ریکارڈ برا نہیں ہے نیب کے علاؤہ جسے اب حضرت مولانا فضل الرحمان جناب آصف علی زرداری کی ترجمانی میں ختم کرلیں گے حالانکہ مسئلہ نیب و ریب کا نہیں ہے حقیقی معنوں میں مشکلات اشرافیہ نے پیدا کئے ہیں اور عوام الناس کو مفلوک الحال رکھنے میں سول و ملٹری اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ و جاگیر داروں کے گرفت مضبوط رکھنے والے مذہبی و سیاسی قیادتوں نے کردار ناقص ادا کیا ہے عمران خان نے ٹھیک کہا کہ وہ حکومت سے باہر زیادہ خطرناک ہے اب شہباز شریف نے ہر روز یوم حساب کے طور پر گزارنا ہے تب ہی 2023 ء کے سر پر کھڑے انتخابات میں پی ڈی ایم کے حکمران پارٹیوں کے جمعہ بازار کو کچھ نہ کچھ پذیرائی مل پائی گی ،شہباز شریف صاحب اگر پہلے ہفتے میں اسلام آباد ایئرپورٹ کے لئے میٹرو بس سروس کے حکم مبارکہ کی طرح کوئٹہ و کراچی کے لاکھوں نہیں کروڑوں انسانوں کے لئے کوئی قدم اٹھائے تو نوازش ہوگی جناب شہباز شریف کی ورنہ تبدیلی اور ممکنات کے مواقع ضائع ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی اس لئے کہ کراچی تباہی و بربادی کے دہانے پر ہے جناب عمران خان سے احتساب میں پہلا سوال کراچی کا ہی پوچھنا چاہیں کوئٹہ اور بلوچستان کے پشتون و بلوچ علاقوں میں ضروریات زندگی کی مقدم طور پر فراہمی ریاست پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی اعتبار سے بڑی ناکامی کسی مرحلے پر ثابت ہوسکتی ہے جس کا احساس جناب نواز شریف نے تین مرتبہ وزیراعظم بننے کے باوجود نہیں کیا
یہ بھی پڑھئے:
دور عمرانیہ، سندھ کی طرح بلوچستان نظر انداز ہی رہا
مکران، لسبیلہ، خاران کے پاکستان سے الحاق کی پیچیدہ کہانی
عمران خان: جب صدر ممنون نے عمران خان سے وزارت عظمی کا حلف لیا
یہ جنوری 2012 ء کا یخ بستہ دن تھا اور کوئٹہ کے سرینا ہوٹل میں میاں نواز شریف صاحب نے لندن جلا وطنی کے بعد بلوچستان کے عوام و دانش مندوں کو سننا تھا میزبان مجلس جناب نواب ثناء اللہ زہری و سینٹر نصیب اللہ خان بازئی دونوں حیات ہیں کبھی اس مجلس کا پورا تجزیہ کرتے ہیں، پھر 2013ء کے اختتام پر مستونگ میں درجنوں افراد کو کراچی جانے والے بس سے اترنے کے ساتھ قتل عام کیا گیا یہ بیچارے پنجاب و کشمیر کے غریب و مزدور نہیں تھے بلکہ سب کے سب پشتون مزدور کراچی میں روزی روٹی کمانے کے لئے سفر کررہے تھے وزیر اعلیٰ بلوچستان جناب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دعوت پر گورنر ہاؤس کوئٹہ میں محمود خان اچکزئی کے بھائی جناب محمد خان اچکزئی کے میزبانی میں جناب وزیر اعظم پاکستان جناب نواز شریف تشریف لاتے ہیں اس مجلس میں اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور سینٹر عثمان خان کاکڑ بھی موجود تھے اور تیسری مجلس 2014 کے آخر میں بلوچستان حکومت کے زیر اہتمام اسلام آباد میں منعقدہ سرمایہ کاری کانفرنس میں تیسرے بار وزیر اعظم پاکستان بننے والے جناب نواز شریف تشریف لائے جہاں مولانا محمد خان شیرانی نے بھی درد مندی اور عاجزی سے ملاقات کی درخواست کی، ان تینوں واقعات اور مشاہدات کے تفصیلات کبھی موقع پر قلمبند کرتے ہیں،،
سردست جناب شہباز شریف سے درخواست ہے کہ وہ نواز شریف کے مشورے پر نہ چلے ، خدا گواہ ہے کہ جناب نواز شریف سے اب بہتری کی امید ہے جس طرح جناب عمران خان ڈسنے سے ہوش میں آنے کے لئے پر تول رہے ہیں لیکن میری استدلال یہ ہے کہ پاکستان کے لئے اب ماہ سال کے برابر ہے اور سال عشرے کے برابر، جناب وزیر اعظم پاکستان وقت کے اس قیمتی لمحات سے بھرپور استفادہ اٹھائیں کراچی و کوئٹہ کے ساتھ وزیرستان اور اندرون سندھ بھی آپ کو پکار رہے ہیں پنجاب کی پندرہ کروڑ آبادیوں کے مشکلات آپ بخوبی جانتے ہیں غربت و سماجی نا امیدی جادو کی طرح ناچ رہی ہے انسانی زندگی کے بنیادی ضروریات اور نئے زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضے آپ سے مضبوط عزم و ہمت اور دانش مندی و فکری اسٹیٹس کو توڑنے کا اعلان چاہتی ہے اس لئے جناب وزیر اعظم پاکستان آپ کام کے لئے کمر کس لیں اور جناب زرداری صاحب و محترم مولانا فضل الرحمان صاحب کو عمران خان کے فتوے بازی کے لئے چھوڑیں اس لئے کہ وقت عمل کام ہے اور چیلنج و انتشار زیادہ بہتر ہوگا کہ آپ نواز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان،سردار اختر جان مینگل،محمود خان اچکزئی،ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ،ایم کیو ایم کے رہنما و داوڑ وغیرہ کو اپنے جمہوری تماشا دیکھنے کے لئے چھوڑیں اور تعمیری ماحول کی تشکیل و تعمیر نو کے لئے نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اور منصفانہ سماجی شعور کی بیداری و انصاف کے ثمرات سے محروم و مفلوک الحال مردوں و خواتین اور بچوں و بچیوں میں زندگی و دانش مندی کی آرزو مندی جگا دیں کہ یہی اصل میں نئے پاکستان کی بنیاد ہوگی،،###