Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
کرونا وائرس کی ہولناکیوں تک سماجی انصاف و عوامی ترقی و خوشحالی کا نہ ہونا ایسا سلگتا سوال ہے کہ اس کا مناسب جواب تلاش کئے بغیر چارہ نہیں ہے،بھلا اپنے ماں باپ کی بولی یعنی مادری زبان کے لئے بھی تحفظ و احترام درکار ہوتا ہے یہی تو وہ بنیادی انسانی حق ہے جسے بغیر احتجاج و فریاد کے بھی احترام و اہمیت اور تحفظ و کامیابی حاصل ہونا چاہئے،، لیکن قصہ کوتاہ بینی کے خاطر ہم اب تک اپنے ہی ملک یعنی مشرقی پاکستان کے قضیے اور بنگلہ دیش کے قیام سے کوئی سبق اور عبرت حاصل نہیں کرسکے، ملک کے دوسرے حصوں کی طرح کوئٹہ میں بھی 21 فروری کے عالمی مدد لینگویجز ڈے کے موقع پر مختلف الخیال افراد و ادارےعلمی و فکری اور تہذیبی و لسانی ارتقاء و دانش کے متعلق پروگرام منعقد کرتے ہیں جس کے تفصیلات اور ممکنہ منصوبے و تجزیوں سے آگاہی دینے کی کوشش ہوتی ہیں ، مثبت بحث و مباحثے اور علمی و فکری مکالمے کی کاوشوں سے سماج و قوم میں سھبنلے اور شعور کی بیداری پیدا ہوسکے گا۔
یہ بھی دیکھئے:
اس اہم ترین موضوع پر مرزا خوشی محمد جاوید راقم طراز ہیں کہ ,,, لسانیات اپنے وسیع مفہوم میں سماجی علم ہے زبان سماجی تشکیل ہے لسانیات اس تشکیل کی نوعیت اور اس میں کارفرما قوانین اور اس کے ارتقاء کا مطالعہ کرتی ہے،ہر چند لسانیات دیگر سماجی علوم کے مقابلے میں کم عمر سہی لیکن اس کے سائنسی و علمی طریق کار کی بدولت مستقبل میں اس کے معیارات اور پیمانے زبانوں کو انسانی تعلقات میں نئی مرکزیت اور اہمیت دلائیں گے یہی سبب ہے کہ دینا بھر میں وقت کے ساتھ ساتھ لسانیات کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ آج دینا میں سماجی تعلقات جدید مواصلاتی دور ( communication Age) کے باعث تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں،،جبکہ کوئٹہ سے زبانوں کے امور کے ماہر تعلیم جناب عطاء الحق زیرک نے سال کرونا وائرس یعنی 2020 ء میں اپنے تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ,, تعلیمی زبان کا غلط انتخاب، تیسری دینا کے پانچ ارب انسانوں کا المیہ،،کے عنوان سے پبلش کرتے ہوئے دیباچہ میں پڑھنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے لکھتے ہیں کہ,,ہم جانتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے کامیاب تعلیمی نظام کی وجہ سے کتنی ترقی کررہے ہیں ان کے ہاں یہ کامیاب تعلیمی نظام اس وجہ سے ہے کہ وہاں یہ ابہام بالکل بھی نہیں پائی جاتی کہ بچوں کو کس زبان میں تعلیم دی جائے انھوں نے اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے لئے درست اور منطقی تعلیمی زبان یعنی اپنی مادری زبانیں منتخب کئے اور ان کے ہاں اسی وجہ سے بہترین تعلیمی نظام پائے جاتے ہیں اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ دوسری جانب تیسری دنیا کے ملکوں کے ناکام تعلیمی نظام ان ممالک کی ترقی میں بڑی روکاوٹ ہیں اور ان ممالک کے تعلیمی نظام اس لئے بدترین تعلیمی نظام ہیں کہ انھوں نے اپنے بچوں کو پڑھانے کے لئے درست اور منطقی تعلیمی زبان کا انتخاب نہ کیا،
ترقی یافتہ دینا میں تعلیمی زبان،دفتری زبان،قومی زبان،علاقائی زبان،بین الاقوامی زبان،مزہبی رسوم کی زبان،سائنس و ٹیکنالوجی کی زبان،تحقیق و تخلیق کی زبان کی باقاعدہ پہچان اور ان کا مختلف مقاصد کے لئے استعمال سے آگاہی تعلیمی ماہرین کے لئے تعلیمی پالیسی بناتے وقت بہت کارآمد ہوتی ہے اور ان ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی ماہرین اور تعلیمی منصوبہ ساز کسی ملک میں تعلیمی زبان کے جغرافیائی حدود سے بھی واقف ہوتے ہیں کہ تعلیمی زبان کے حوالے سے ایک علاقہ،ملک،صوبہ یا قصبہ یا پھر دیہات کے لئے کونسی تعلیمی پالیسی بنائی جائے کہ وہاں کے بچے بغیر کسی زبان کی روکاوٹ (Language barrier) کے تعلیمی اداروں میں علم حاصل کرتے رہے،مگر بدقسمتی سے تیسری دنیا کے ممالک میں نہ تو زبان کی مقاصد کے لحاظ سے الگ الگ پہچان ہو پا رہی ہے اور نہ ہی تعلیمی زبان کے حوالے سے مختلف جغرافیائی ڈیویزنز کی تعریف کی گئی ہے جو یقننا ایک کامیاب تعلیمی پالیسی بنانے میں بڑی روکاوٹ ہیں_
یہ بھی دیکھئے:
طنز و مزاح کی دنیا اور آج کل کے مزاحیہ پروگرام
اکیس فروری: آج اردو کے نامور محقق مشفق خواجہ کا یوم وفات ہے
اطہر متین احمد: کراچی ڈائری کا آخری ورق
مزاح نگاری کا فوجی مزاج: کاکولیات
پروفیسر عطاء الحق زیرک نے اپنے تحقیقی مقالہ میں تیسری دنیا کے ممالک کے لئے تعلیمی زبان کے قابل عمل ماڈلز پیش کئے ہیں جو کہ دینا کے ترقی یافتہ ممالک کے کامیاب تعلیمی زبان کے ماڈلز کو مدنظر رکھ کر بنائے گئے ہیں_وہ لکھتے ہیں کہ مختلف ذرائع سے تحقیقی مواد کے حصول کے دوران میری یہ سوچ مسلسل تقویت پاتی رہی کہ یقنیا ترقی یافتہ قوموں کی تعلیمی ترقی کا راز تعلیمی زبان کے درست انتخاب میں ہے اور ان قوموں کی معاشی ترقی تعلیمی ترقی کی وجہ سے ہے میری یہ سوچ یقننا تیسری دنیا کے ماہرین تعلیم کے لئے مزید تحقیق کے دروازے کھولنے کا باعث بن سکتی ہے،،،جبکہ اپنے تحقیقی کتاب ,,,لسانیات تا سماجی لسانیات ،،،میں ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو لکھتے ہیں
,,, کہ گزشتہ تیس برسوں کے دوران علم اللسان یعنی زبان کے علم کا زمان و مکان،ہیئت اور مختلف شاخوں کے حوالے سے باالترتیب مطالعہ وقت کی ضرورت اور فکر لازم کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اس علم نے تیزی سے پھیل کر اس قدر مقبولیت حاصل کی ہے کہ دینا کی بیشتر اہم جامعات اسے گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کے نصابوں میں شامل کرکے مکمل اسناد دے رہی ہیں_ ترقی یافتہ دینا کے برعکس پاکستان میں اس علم سے متعلق تا حال سنجیدگی سے نہیں سوچا گیا ہے اگرچہ چند جامعات میں اس جدید علم کے تربیت یافتہ چند اساتذہ موجود ہیں لیکن ان جامعات میں بھی محض تعارفی لسانیات ہی پڑھائی جاتی ہے اور اس کے تفصیلی تشریحی مطالعہ کے علاؤہ لسانیات کی دیگر اہم شاخوں کی جانب توجہ نہیں دی جارہی ہیں- ترقی یافتہ دنیا میں اس علم کی شہرت اور تحقیق نے سماجیات،نفسیات ،فلسفہ اور علم الانسان کے علماء،اساتذہ اور بات چیت میں عیب،نقص اور بت ترتیبی کو سدھارنے کی کوشش کرنے والے علماء (speech therapists) کے علاؤہ دیگر بیشتر ماہرین سماجی سائنس کو احساس دلایا ہے کہ زبان ان کے امور زندگی کی تمام مصروفیات میں بڑا اور اہم مقام رکھتی ہے لیکن جب انھوں نے اس علم سے متعلق مزید تحقیق کی تو انھیں محسوس ہوا کہ لسانیات کا موضوع دقیق،تکینکی اور کسی قدر محدود قسم کا ہے،،
جبکہ عباس نئیر اسے ادبی تصورات اور زندہ سوالات کے ساتھ ایک مثہور زمانہ ادبی صنف پارے و ڈرامے کی کہانی بیان کرتے ہوئے اس مقدمے کا جائزہ لیتے ہیں کہ مادری زبانوں کا عالمی دن ہے،جسے اس صدی کے آغاز سے منایا جانے لگا ہے۔یہ دن ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کا ہر سال موقع دیتا ہے ، اور ہمیں مادر ی زبانوں کے مسئلے کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔اس دن کا راست تعلق ہم پاکستانیوں سے ہے۔تاریخ اکیس فروری 1952 ،مقام ڈھاکایونیورسٹی ، موجودہ بنگلہ دیش۔ طلبا اپنے لسانی حق کے لئے احتجاج کررہے ہیں۔ پانچ سال پہلے نو آبادیاتی زنجیروں کو توڑکر وجود میں آنے والی ریاست، نوآبادیاتی جبر سے کام لیتی ہے۔ احتجاج کرنے والوں کی زبانوں کو خاموش کرانے کی خاطر ان پر گولی چلاتی ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ مادری زبان کو تسلیم کرانے کی خاطر چند نوجوان اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں ۔مادری یا نیٹو زبان کی اہمیت کیا ہوتی ہے اور اس سے محرومی کا انسانوں کی سیاسی ، ثقافتی ، تعلیمی ہی نہیں ،ان کی نفسی زندگی پر کیا اثرپڑتا ہے،یہ بیسویں صدی کی لسانیات ہی کا نہیں،ادب کا بھی اہم موضوع بنا ہے۔گلوبلائزیشن کے عہد میں،اقوامِ متحدہ کی جانب سے 21 فروری کا دن’’ مادری زبانوں کے عالمی یوم‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یونیسکو(UNESCO)کے بورڈ آف گورنرز کی عمومی کانفرنس کی جانب سے 2نومبر 2001ء کو ایک اعلامیہ جاری ہوا، جس میں کہا گیا کہ ’’ہر انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند، خصوصاً اپنی مادری زبان میں اپنے خیالات اور تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار اور پرچار کرے۔ تمام انسان ایسی معیاری تعلیم و تربیت کا حق رکھتے ہیں، جس کے ذریعے اُن کی ثقافت کی شناخت ہو سکے۔‘‘ گلوبلائزیشن کے ہنگامہ خیز دَور میں جہاں ایک طرف سرمائے نے جغرافیائی سرحدیں عبور کرلیں، وہیں دوسری طرف، قومی ثقافتوں کی بقا و فنا کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ خصوصاً اُن ممالک میں یہ مسئلہ زیادہ نمایاں ہے، جہاں قومی زبانیں حکومتوں کی بدسلوکی اور عوام کی لاپروائی کا شکار ہیں۔
بعض قومی زبانوں (مادری زبانوں) کو علاقائی زبانیں کہا جاتا ہے اور اُنھیں دوسرے، تیسرے درجے کی حیثیت دی گئی ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں بھی صُورتِ حال کچھ ایسی ہی ہے۔ تعلیمی اور سرکاری اداروں میں یہ زبانیں شجرِممنوعہ قرار پائی ہیں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی اُن پر غیر اعلانیہ پابندی عائد ہے، تو ظاہر ہے کہ جو زبان ذریعۂ تعلیم نہ ہو، معاش اور ملازمت کی ضرورت بھی نہ ہو اور ذرائع ابلاغ میں کسی بنیادی اہمیت کی حامل نہ ہو، وہ کس طرح ترقّی کر سکے گی اور زندہ رہ پائے گی۔ اہلِ فہم و دانش کہتے ہیں کہ بچّے کی ذہنی نشوونما، ترقّی، تعلیم اور تربیت مادری زبان ہی کے ذریعے اچھی ہو سکتی ہے۔
نیز، ماہرین اس بات پر بھی متفّق ہیں کہ بچّوں کی اُس زبان میں تعلیم و تربیت ہونی چاہیے، جس میں وہ خواب دیکھتے ہیں۔اور ظاہر ہے کہ خواب ،مادری زبان ہی میں دیکھے جاتے ہیں۔ دنیا کی تمام مہذب اور ترقّی یافتہ اقوام عملی طور پر اپنے بچّوں کو یہ حق دے چُکی ہیں۔
ایّوب خان کے دورِ حکومت میں قائم کردہ’’ قومی تعلیمی کمیشن‘‘ نے بھی بچّوں کو مادری زبان میں تعلیم دینے کی سفارش کی، تاہم اس سفارش پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 251کی تیسری شق کے تحت صوبوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ قومی زبان اُردو کے ساتھ، صوبائی زبانوں کی ترقّی، استعمال اور تعلیم کے لیے مناسب قوانین وضع کر سکتے ہیں۔ اسی شق کے تحت سندھ میں سندھی زبان نہ صرف تعلیمی بلکہ دفتری زبان قرار پائی، لیکن پشتو ،بلوچی ، براھوئی، پنجابی، سرائیکی اور دیگر علاقائی زبانیں اب تک اُس آئینی حق سے تاحال محروم رکھے گئے ہیں_
پروفیسر اسٹیفن اے وورم کی تحقیقی کتاب’’Atlas of the world’s languages in danger of disappearing‘‘میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں کم و بیش 6ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں،جن میں آدھی سے زیادہ اب ختم ہوتی جارہی ہیں،،
E,C,O,L
تعلیم اپنی زبان میں مومنٹ نے ,,,
آؤ! اپنے بچوں کو اپنی زبان میں پڑھائیں،،
کے سلوگن کے تحت تعلیمی زبان کی مجوزہ پالیسی کہ بلوچستان اور مجموعی طور پر پورے ملک کے لئے تعلیمی زبان کی مجوزہ پالیسی کے خدو خال درج ذیل ممکنہ ہوسکتےہیں
01!:
تعلیمی زبان کا انتخاب لسانی کثافت کی بنیاد پر کیا جائے گا،
02!:
ایک بڑے لسانی علاقے میں اسی علاقے کی بڑی زبان تعلیمی زبان ہوگی،
03!:
ایک بڑے لسانی علاقے میں آباد چھوٹے لسانی گروہ کے بچے اس مخصوص علاقے کی بڑی زبان میں تعلیم حاصل کریں گے اگر وہ بچے سکول میں داخلے کے وقت اس علاقے کی بڑی زبان بول سکتے ہوں،
04!:
کسی شہر یا بڑے لسانی علاقے میں موجود بیس فیصد سے زیادہ لسانی کثافت والی چھوٹی لسانی گروہ کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ علاقے کی بڑی زبان میں تعلیم حاصل کریں یا پھر اپنی مادری زبان میں_ اس کے لئے انھیں سکول اور مکمل تعلیمی سہولیات اور ماحول فراہم کیاجائے گا،
05:!
کسی شہر یا علاقے میں باہر سے آئے ہوئے بچے جو اس مخصوص علاقے کی بڑی زبان نہیں بول سکتے ان کے لئے الگ سے ان کی آبادی کے لحاظ سے کوئی نیشنل یا انٹرنیشنل سکول/ کالج یا یونیورسٹی قائم کی جائے گی جو کہ کسی قومی یا بین الاقوامی زبان میں تعلیم دیں گے_
06!:
کسی بڑے لسانی علاقے میں چھوٹے لسانی گروہ کے بچے و استاد کو اپنی زبان میں پڑھنے کا اختیار دیا جائے تاکہ ان کی زبان و کلچر محفوظ رہے،،
بنیادی مشکل معلومات اور تصورات کی تفہیم و تشریح نہیں ہیں بلکہ پولیٹیکل ول یعنی سیاسی عزم و استقلال ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بنیادی حقوق و ترجیحات کا تعین کرنے میں بھی مسائل اور ذہنی مشکلات رہتے ہیں حالانکہ کوئٹہ میں انسٹی ٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ اسٹیڈیز اینڈ پریکٹسزIDSP نے فروری 2003 ء میں ,,,گلوبلائزیشن اور مادری زبانیں،،چیلنجز اور مواقع کے عنوان سے قومی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا جس کے معنی خیز اور معتبر سفارشات کتابی صورت میں شائع ہمارے فاضل دوست جناب عارف تبسم نے مرتب کرکے شائع کئے ہیں لیکن اٹھارہ بیس سال گزرنے کے باوجود ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکا ہے ،اصل سوال پولیٹیکل ول اور سیاسی عزم و ہمت کی ہے جس بیدار و توانا کرنے کی ضرورت ہے،،
اس قیمتی بحث ومباحثہ اور تحقیق و جستجو کو ہم مرحوم دوست اور انتہائی زیرک ادیب ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ کے مادری زبان پر پشتو شعر سے اختتام پذیر کرتے ہیں کہ
مورنی ژبہ
( مادری زبان)
بببراسولی می دہ مور، مورنی ژبہ
سہ عظمت زما د کور، مورنی ژبہ
پہ ھر اڑخ کیسی د ژوندون بہ ویی ناکامہ
چی کوم چوک گڑیی پیغور ، مورنی ژبہ،،،
کرونا وائرس کی ہولناکیوں تک سماجی انصاف و عوامی ترقی و خوشحالی کا نہ ہونا ایسا سلگتا سوال ہے کہ اس کا مناسب جواب تلاش کئے بغیر چارہ نہیں ہے،بھلا اپنے ماں باپ کی بولی یعنی مادری زبان کے لئے بھی تحفظ و احترام درکار ہوتا ہے یہی تو وہ بنیادی انسانی حق ہے جسے بغیر احتجاج و فریاد کے بھی احترام و اہمیت اور تحفظ و کامیابی حاصل ہونا چاہئے،، لیکن قصہ کوتاہ بینی کے خاطر ہم اب تک اپنے ہی ملک یعنی مشرقی پاکستان کے قضیے اور بنگلہ دیش کے قیام سے کوئی سبق اور عبرت حاصل نہیں کرسکے، ملک کے دوسرے حصوں کی طرح کوئٹہ میں بھی 21 فروری کے عالمی مدد لینگویجز ڈے کے موقع پر مختلف الخیال افراد و ادارےعلمی و فکری اور تہذیبی و لسانی ارتقاء و دانش کے متعلق پروگرام منعقد کرتے ہیں جس کے تفصیلات اور ممکنہ منصوبے و تجزیوں سے آگاہی دینے کی کوشش ہوتی ہیں ، مثبت بحث و مباحثے اور علمی و فکری مکالمے کی کاوشوں سے سماج و قوم میں سھبنلے اور شعور کی بیداری پیدا ہوسکے گا۔
یہ بھی دیکھئے:
اس اہم ترین موضوع پر مرزا خوشی محمد جاوید راقم طراز ہیں کہ ,,, لسانیات اپنے وسیع مفہوم میں سماجی علم ہے زبان سماجی تشکیل ہے لسانیات اس تشکیل کی نوعیت اور اس میں کارفرما قوانین اور اس کے ارتقاء کا مطالعہ کرتی ہے،ہر چند لسانیات دیگر سماجی علوم کے مقابلے میں کم عمر سہی لیکن اس کے سائنسی و علمی طریق کار کی بدولت مستقبل میں اس کے معیارات اور پیمانے زبانوں کو انسانی تعلقات میں نئی مرکزیت اور اہمیت دلائیں گے یہی سبب ہے کہ دینا بھر میں وقت کے ساتھ ساتھ لسانیات کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ آج دینا میں سماجی تعلقات جدید مواصلاتی دور ( communication Age) کے باعث تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں،،جبکہ کوئٹہ سے زبانوں کے امور کے ماہر تعلیم جناب عطاء الحق زیرک نے سال کرونا وائرس یعنی 2020 ء میں اپنے تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ,, تعلیمی زبان کا غلط انتخاب، تیسری دینا کے پانچ ارب انسانوں کا المیہ،،کے عنوان سے پبلش کرتے ہوئے دیباچہ میں پڑھنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے لکھتے ہیں کہ,,ہم جانتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے کامیاب تعلیمی نظام کی وجہ سے کتنی ترقی کررہے ہیں ان کے ہاں یہ کامیاب تعلیمی نظام اس وجہ سے ہے کہ وہاں یہ ابہام بالکل بھی نہیں پائی جاتی کہ بچوں کو کس زبان میں تعلیم دی جائے انھوں نے اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے لئے درست اور منطقی تعلیمی زبان یعنی اپنی مادری زبانیں منتخب کئے اور ان کے ہاں اسی وجہ سے بہترین تعلیمی نظام پائے جاتے ہیں اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ دوسری جانب تیسری دنیا کے ملکوں کے ناکام تعلیمی نظام ان ممالک کی ترقی میں بڑی روکاوٹ ہیں اور ان ممالک کے تعلیمی نظام اس لئے بدترین تعلیمی نظام ہیں کہ انھوں نے اپنے بچوں کو پڑھانے کے لئے درست اور منطقی تعلیمی زبان کا انتخاب نہ کیا،
ترقی یافتہ دینا میں تعلیمی زبان،دفتری زبان،قومی زبان،علاقائی زبان،بین الاقوامی زبان،مزہبی رسوم کی زبان،سائنس و ٹیکنالوجی کی زبان،تحقیق و تخلیق کی زبان کی باقاعدہ پہچان اور ان کا مختلف مقاصد کے لئے استعمال سے آگاہی تعلیمی ماہرین کے لئے تعلیمی پالیسی بناتے وقت بہت کارآمد ہوتی ہے اور ان ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی ماہرین اور تعلیمی منصوبہ ساز کسی ملک میں تعلیمی زبان کے جغرافیائی حدود سے بھی واقف ہوتے ہیں کہ تعلیمی زبان کے حوالے سے ایک علاقہ،ملک،صوبہ یا قصبہ یا پھر دیہات کے لئے کونسی تعلیمی پالیسی بنائی جائے کہ وہاں کے بچے بغیر کسی زبان کی روکاوٹ (Language barrier) کے تعلیمی اداروں میں علم حاصل کرتے رہے،مگر بدقسمتی سے تیسری دنیا کے ممالک میں نہ تو زبان کی مقاصد کے لحاظ سے الگ الگ پہچان ہو پا رہی ہے اور نہ ہی تعلیمی زبان کے حوالے سے مختلف جغرافیائی ڈیویزنز کی تعریف کی گئی ہے جو یقننا ایک کامیاب تعلیمی پالیسی بنانے میں بڑی روکاوٹ ہیں_
یہ بھی دیکھئے:
طنز و مزاح کی دنیا اور آج کل کے مزاحیہ پروگرام
اکیس فروری: آج اردو کے نامور محقق مشفق خواجہ کا یوم وفات ہے
اطہر متین احمد: کراچی ڈائری کا آخری ورق
مزاح نگاری کا فوجی مزاج: کاکولیات
پروفیسر عطاء الحق زیرک نے اپنے تحقیقی مقالہ میں تیسری دنیا کے ممالک کے لئے تعلیمی زبان کے قابل عمل ماڈلز پیش کئے ہیں جو کہ دینا کے ترقی یافتہ ممالک کے کامیاب تعلیمی زبان کے ماڈلز کو مدنظر رکھ کر بنائے گئے ہیں_وہ لکھتے ہیں کہ مختلف ذرائع سے تحقیقی مواد کے حصول کے دوران میری یہ سوچ مسلسل تقویت پاتی رہی کہ یقنیا ترقی یافتہ قوموں کی تعلیمی ترقی کا راز تعلیمی زبان کے درست انتخاب میں ہے اور ان قوموں کی معاشی ترقی تعلیمی ترقی کی وجہ سے ہے میری یہ سوچ یقننا تیسری دنیا کے ماہرین تعلیم کے لئے مزید تحقیق کے دروازے کھولنے کا باعث بن سکتی ہے،،،جبکہ اپنے تحقیقی کتاب ,,,لسانیات تا سماجی لسانیات ،،،میں ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو لکھتے ہیں
,,, کہ گزشتہ تیس برسوں کے دوران علم اللسان یعنی زبان کے علم کا زمان و مکان،ہیئت اور مختلف شاخوں کے حوالے سے باالترتیب مطالعہ وقت کی ضرورت اور فکر لازم کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اس علم نے تیزی سے پھیل کر اس قدر مقبولیت حاصل کی ہے کہ دینا کی بیشتر اہم جامعات اسے گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کے نصابوں میں شامل کرکے مکمل اسناد دے رہی ہیں_ ترقی یافتہ دینا کے برعکس پاکستان میں اس علم سے متعلق تا حال سنجیدگی سے نہیں سوچا گیا ہے اگرچہ چند جامعات میں اس جدید علم کے تربیت یافتہ چند اساتذہ موجود ہیں لیکن ان جامعات میں بھی محض تعارفی لسانیات ہی پڑھائی جاتی ہے اور اس کے تفصیلی تشریحی مطالعہ کے علاؤہ لسانیات کی دیگر اہم شاخوں کی جانب توجہ نہیں دی جارہی ہیں- ترقی یافتہ دنیا میں اس علم کی شہرت اور تحقیق نے سماجیات،نفسیات ،فلسفہ اور علم الانسان کے علماء،اساتذہ اور بات چیت میں عیب،نقص اور بت ترتیبی کو سدھارنے کی کوشش کرنے والے علماء (speech therapists) کے علاؤہ دیگر بیشتر ماہرین سماجی سائنس کو احساس دلایا ہے کہ زبان ان کے امور زندگی کی تمام مصروفیات میں بڑا اور اہم مقام رکھتی ہے لیکن جب انھوں نے اس علم سے متعلق مزید تحقیق کی تو انھیں محسوس ہوا کہ لسانیات کا موضوع دقیق،تکینکی اور کسی قدر محدود قسم کا ہے،،
جبکہ عباس نئیر اسے ادبی تصورات اور زندہ سوالات کے ساتھ ایک مثہور زمانہ ادبی صنف پارے و ڈرامے کی کہانی بیان کرتے ہوئے اس مقدمے کا جائزہ لیتے ہیں کہ مادری زبانوں کا عالمی دن ہے،جسے اس صدی کے آغاز سے منایا جانے لگا ہے۔یہ دن ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کا ہر سال موقع دیتا ہے ، اور ہمیں مادر ی زبانوں کے مسئلے کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔اس دن کا راست تعلق ہم پاکستانیوں سے ہے۔تاریخ اکیس فروری 1952 ،مقام ڈھاکایونیورسٹی ، موجودہ بنگلہ دیش۔ طلبا اپنے لسانی حق کے لئے احتجاج کررہے ہیں۔ پانچ سال پہلے نو آبادیاتی زنجیروں کو توڑکر وجود میں آنے والی ریاست، نوآبادیاتی جبر سے کام لیتی ہے۔ احتجاج کرنے والوں کی زبانوں کو خاموش کرانے کی خاطر ان پر گولی چلاتی ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ مادری زبان کو تسلیم کرانے کی خاطر چند نوجوان اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں ۔مادری یا نیٹو زبان کی اہمیت کیا ہوتی ہے اور اس سے محرومی کا انسانوں کی سیاسی ، ثقافتی ، تعلیمی ہی نہیں ،ان کی نفسی زندگی پر کیا اثرپڑتا ہے،یہ بیسویں صدی کی لسانیات ہی کا نہیں،ادب کا بھی اہم موضوع بنا ہے۔گلوبلائزیشن کے عہد میں،اقوامِ متحدہ کی جانب سے 21 فروری کا دن’’ مادری زبانوں کے عالمی یوم‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یونیسکو(UNESCO)کے بورڈ آف گورنرز کی عمومی کانفرنس کی جانب سے 2نومبر 2001ء کو ایک اعلامیہ جاری ہوا، جس میں کہا گیا کہ ’’ہر انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند، خصوصاً اپنی مادری زبان میں اپنے خیالات اور تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار اور پرچار کرے۔ تمام انسان ایسی معیاری تعلیم و تربیت کا حق رکھتے ہیں، جس کے ذریعے اُن کی ثقافت کی شناخت ہو سکے۔‘‘ گلوبلائزیشن کے ہنگامہ خیز دَور میں جہاں ایک طرف سرمائے نے جغرافیائی سرحدیں عبور کرلیں، وہیں دوسری طرف، قومی ثقافتوں کی بقا و فنا کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ خصوصاً اُن ممالک میں یہ مسئلہ زیادہ نمایاں ہے، جہاں قومی زبانیں حکومتوں کی بدسلوکی اور عوام کی لاپروائی کا شکار ہیں۔
بعض قومی زبانوں (مادری زبانوں) کو علاقائی زبانیں کہا جاتا ہے اور اُنھیں دوسرے، تیسرے درجے کی حیثیت دی گئی ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں بھی صُورتِ حال کچھ ایسی ہی ہے۔ تعلیمی اور سرکاری اداروں میں یہ زبانیں شجرِممنوعہ قرار پائی ہیں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی اُن پر غیر اعلانیہ پابندی عائد ہے، تو ظاہر ہے کہ جو زبان ذریعۂ تعلیم نہ ہو، معاش اور ملازمت کی ضرورت بھی نہ ہو اور ذرائع ابلاغ میں کسی بنیادی اہمیت کی حامل نہ ہو، وہ کس طرح ترقّی کر سکے گی اور زندہ رہ پائے گی۔ اہلِ فہم و دانش کہتے ہیں کہ بچّے کی ذہنی نشوونما، ترقّی، تعلیم اور تربیت مادری زبان ہی کے ذریعے اچھی ہو سکتی ہے۔
نیز، ماہرین اس بات پر بھی متفّق ہیں کہ بچّوں کی اُس زبان میں تعلیم و تربیت ہونی چاہیے، جس میں وہ خواب دیکھتے ہیں۔اور ظاہر ہے کہ خواب ،مادری زبان ہی میں دیکھے جاتے ہیں۔ دنیا کی تمام مہذب اور ترقّی یافتہ اقوام عملی طور پر اپنے بچّوں کو یہ حق دے چُکی ہیں۔
ایّوب خان کے دورِ حکومت میں قائم کردہ’’ قومی تعلیمی کمیشن‘‘ نے بھی بچّوں کو مادری زبان میں تعلیم دینے کی سفارش کی، تاہم اس سفارش پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 251کی تیسری شق کے تحت صوبوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ قومی زبان اُردو کے ساتھ، صوبائی زبانوں کی ترقّی، استعمال اور تعلیم کے لیے مناسب قوانین وضع کر سکتے ہیں۔ اسی شق کے تحت سندھ میں سندھی زبان نہ صرف تعلیمی بلکہ دفتری زبان قرار پائی، لیکن پشتو ،بلوچی ، براھوئی، پنجابی، سرائیکی اور دیگر علاقائی زبانیں اب تک اُس آئینی حق سے تاحال محروم رکھے گئے ہیں_
پروفیسر اسٹیفن اے وورم کی تحقیقی کتاب’’Atlas of the world’s languages in danger of disappearing‘‘میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں کم و بیش 6ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں،جن میں آدھی سے زیادہ اب ختم ہوتی جارہی ہیں،،
E,C,O,L
تعلیم اپنی زبان میں مومنٹ نے ,,,
آؤ! اپنے بچوں کو اپنی زبان میں پڑھائیں،،
کے سلوگن کے تحت تعلیمی زبان کی مجوزہ پالیسی کہ بلوچستان اور مجموعی طور پر پورے ملک کے لئے تعلیمی زبان کی مجوزہ پالیسی کے خدو خال درج ذیل ممکنہ ہوسکتےہیں
01!:
تعلیمی زبان کا انتخاب لسانی کثافت کی بنیاد پر کیا جائے گا،
02!:
ایک بڑے لسانی علاقے میں اسی علاقے کی بڑی زبان تعلیمی زبان ہوگی،
03!:
ایک بڑے لسانی علاقے میں آباد چھوٹے لسانی گروہ کے بچے اس مخصوص علاقے کی بڑی زبان میں تعلیم حاصل کریں گے اگر وہ بچے سکول میں داخلے کے وقت اس علاقے کی بڑی زبان بول سکتے ہوں،
04!:
کسی شہر یا بڑے لسانی علاقے میں موجود بیس فیصد سے زیادہ لسانی کثافت والی چھوٹی لسانی گروہ کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ علاقے کی بڑی زبان میں تعلیم حاصل کریں یا پھر اپنی مادری زبان میں_ اس کے لئے انھیں سکول اور مکمل تعلیمی سہولیات اور ماحول فراہم کیاجائے گا،
05:!
کسی شہر یا علاقے میں باہر سے آئے ہوئے بچے جو اس مخصوص علاقے کی بڑی زبان نہیں بول سکتے ان کے لئے الگ سے ان کی آبادی کے لحاظ سے کوئی نیشنل یا انٹرنیشنل سکول/ کالج یا یونیورسٹی قائم کی جائے گی جو کہ کسی قومی یا بین الاقوامی زبان میں تعلیم دیں گے_
06!:
کسی بڑے لسانی علاقے میں چھوٹے لسانی گروہ کے بچے و استاد کو اپنی زبان میں پڑھنے کا اختیار دیا جائے تاکہ ان کی زبان و کلچر محفوظ رہے،،
بنیادی مشکل معلومات اور تصورات کی تفہیم و تشریح نہیں ہیں بلکہ پولیٹیکل ول یعنی سیاسی عزم و استقلال ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بنیادی حقوق و ترجیحات کا تعین کرنے میں بھی مسائل اور ذہنی مشکلات رہتے ہیں حالانکہ کوئٹہ میں انسٹی ٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ اسٹیڈیز اینڈ پریکٹسزIDSP نے فروری 2003 ء میں ,,,گلوبلائزیشن اور مادری زبانیں،،چیلنجز اور مواقع کے عنوان سے قومی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا جس کے معنی خیز اور معتبر سفارشات کتابی صورت میں شائع ہمارے فاضل دوست جناب عارف تبسم نے مرتب کرکے شائع کئے ہیں لیکن اٹھارہ بیس سال گزرنے کے باوجود ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکا ہے ،اصل سوال پولیٹیکل ول اور سیاسی عزم و ہمت کی ہے جس بیدار و توانا کرنے کی ضرورت ہے،،
اس قیمتی بحث ومباحثہ اور تحقیق و جستجو کو ہم مرحوم دوست اور انتہائی زیرک ادیب ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ کے مادری زبان پر پشتو شعر سے اختتام پذیر کرتے ہیں کہ
مورنی ژبہ
( مادری زبان)
بببراسولی می دہ مور، مورنی ژبہ
سہ عظمت زما د کور، مورنی ژبہ
پہ ھر اڑخ کیسی د ژوندون بہ ویی ناکامہ
چی کوم چوک گڑیی پیغور ، مورنی ژبہ،،،
کرونا وائرس کی ہولناکیوں تک سماجی انصاف و عوامی ترقی و خوشحالی کا نہ ہونا ایسا سلگتا سوال ہے کہ اس کا مناسب جواب تلاش کئے بغیر چارہ نہیں ہے،بھلا اپنے ماں باپ کی بولی یعنی مادری زبان کے لئے بھی تحفظ و احترام درکار ہوتا ہے یہی تو وہ بنیادی انسانی حق ہے جسے بغیر احتجاج و فریاد کے بھی احترام و اہمیت اور تحفظ و کامیابی حاصل ہونا چاہئے،، لیکن قصہ کوتاہ بینی کے خاطر ہم اب تک اپنے ہی ملک یعنی مشرقی پاکستان کے قضیے اور بنگلہ دیش کے قیام سے کوئی سبق اور عبرت حاصل نہیں کرسکے، ملک کے دوسرے حصوں کی طرح کوئٹہ میں بھی 21 فروری کے عالمی مدد لینگویجز ڈے کے موقع پر مختلف الخیال افراد و ادارےعلمی و فکری اور تہذیبی و لسانی ارتقاء و دانش کے متعلق پروگرام منعقد کرتے ہیں جس کے تفصیلات اور ممکنہ منصوبے و تجزیوں سے آگاہی دینے کی کوشش ہوتی ہیں ، مثبت بحث و مباحثے اور علمی و فکری مکالمے کی کاوشوں سے سماج و قوم میں سھبنلے اور شعور کی بیداری پیدا ہوسکے گا۔
یہ بھی دیکھئے:
اس اہم ترین موضوع پر مرزا خوشی محمد جاوید راقم طراز ہیں کہ ,,, لسانیات اپنے وسیع مفہوم میں سماجی علم ہے زبان سماجی تشکیل ہے لسانیات اس تشکیل کی نوعیت اور اس میں کارفرما قوانین اور اس کے ارتقاء کا مطالعہ کرتی ہے،ہر چند لسانیات دیگر سماجی علوم کے مقابلے میں کم عمر سہی لیکن اس کے سائنسی و علمی طریق کار کی بدولت مستقبل میں اس کے معیارات اور پیمانے زبانوں کو انسانی تعلقات میں نئی مرکزیت اور اہمیت دلائیں گے یہی سبب ہے کہ دینا بھر میں وقت کے ساتھ ساتھ لسانیات کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ آج دینا میں سماجی تعلقات جدید مواصلاتی دور ( communication Age) کے باعث تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں،،جبکہ کوئٹہ سے زبانوں کے امور کے ماہر تعلیم جناب عطاء الحق زیرک نے سال کرونا وائرس یعنی 2020 ء میں اپنے تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ,, تعلیمی زبان کا غلط انتخاب، تیسری دینا کے پانچ ارب انسانوں کا المیہ،،کے عنوان سے پبلش کرتے ہوئے دیباچہ میں پڑھنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے لکھتے ہیں کہ,,ہم جانتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے کامیاب تعلیمی نظام کی وجہ سے کتنی ترقی کررہے ہیں ان کے ہاں یہ کامیاب تعلیمی نظام اس وجہ سے ہے کہ وہاں یہ ابہام بالکل بھی نہیں پائی جاتی کہ بچوں کو کس زبان میں تعلیم دی جائے انھوں نے اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے لئے درست اور منطقی تعلیمی زبان یعنی اپنی مادری زبانیں منتخب کئے اور ان کے ہاں اسی وجہ سے بہترین تعلیمی نظام پائے جاتے ہیں اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ دوسری جانب تیسری دنیا کے ملکوں کے ناکام تعلیمی نظام ان ممالک کی ترقی میں بڑی روکاوٹ ہیں اور ان ممالک کے تعلیمی نظام اس لئے بدترین تعلیمی نظام ہیں کہ انھوں نے اپنے بچوں کو پڑھانے کے لئے درست اور منطقی تعلیمی زبان کا انتخاب نہ کیا،
ترقی یافتہ دینا میں تعلیمی زبان،دفتری زبان،قومی زبان،علاقائی زبان،بین الاقوامی زبان،مزہبی رسوم کی زبان،سائنس و ٹیکنالوجی کی زبان،تحقیق و تخلیق کی زبان کی باقاعدہ پہچان اور ان کا مختلف مقاصد کے لئے استعمال سے آگاہی تعلیمی ماہرین کے لئے تعلیمی پالیسی بناتے وقت بہت کارآمد ہوتی ہے اور ان ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی ماہرین اور تعلیمی منصوبہ ساز کسی ملک میں تعلیمی زبان کے جغرافیائی حدود سے بھی واقف ہوتے ہیں کہ تعلیمی زبان کے حوالے سے ایک علاقہ،ملک،صوبہ یا قصبہ یا پھر دیہات کے لئے کونسی تعلیمی پالیسی بنائی جائے کہ وہاں کے بچے بغیر کسی زبان کی روکاوٹ (Language barrier) کے تعلیمی اداروں میں علم حاصل کرتے رہے،مگر بدقسمتی سے تیسری دنیا کے ممالک میں نہ تو زبان کی مقاصد کے لحاظ سے الگ الگ پہچان ہو پا رہی ہے اور نہ ہی تعلیمی زبان کے حوالے سے مختلف جغرافیائی ڈیویزنز کی تعریف کی گئی ہے جو یقننا ایک کامیاب تعلیمی پالیسی بنانے میں بڑی روکاوٹ ہیں_
یہ بھی دیکھئے:
طنز و مزاح کی دنیا اور آج کل کے مزاحیہ پروگرام
اکیس فروری: آج اردو کے نامور محقق مشفق خواجہ کا یوم وفات ہے
اطہر متین احمد: کراچی ڈائری کا آخری ورق
مزاح نگاری کا فوجی مزاج: کاکولیات
پروفیسر عطاء الحق زیرک نے اپنے تحقیقی مقالہ میں تیسری دنیا کے ممالک کے لئے تعلیمی زبان کے قابل عمل ماڈلز پیش کئے ہیں جو کہ دینا کے ترقی یافتہ ممالک کے کامیاب تعلیمی زبان کے ماڈلز کو مدنظر رکھ کر بنائے گئے ہیں_وہ لکھتے ہیں کہ مختلف ذرائع سے تحقیقی مواد کے حصول کے دوران میری یہ سوچ مسلسل تقویت پاتی رہی کہ یقنیا ترقی یافتہ قوموں کی تعلیمی ترقی کا راز تعلیمی زبان کے درست انتخاب میں ہے اور ان قوموں کی معاشی ترقی تعلیمی ترقی کی وجہ سے ہے میری یہ سوچ یقننا تیسری دنیا کے ماہرین تعلیم کے لئے مزید تحقیق کے دروازے کھولنے کا باعث بن سکتی ہے،،،جبکہ اپنے تحقیقی کتاب ,,,لسانیات تا سماجی لسانیات ،،،میں ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو لکھتے ہیں
,,, کہ گزشتہ تیس برسوں کے دوران علم اللسان یعنی زبان کے علم کا زمان و مکان،ہیئت اور مختلف شاخوں کے حوالے سے باالترتیب مطالعہ وقت کی ضرورت اور فکر لازم کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اس علم نے تیزی سے پھیل کر اس قدر مقبولیت حاصل کی ہے کہ دینا کی بیشتر اہم جامعات اسے گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کے نصابوں میں شامل کرکے مکمل اسناد دے رہی ہیں_ ترقی یافتہ دینا کے برعکس پاکستان میں اس علم سے متعلق تا حال سنجیدگی سے نہیں سوچا گیا ہے اگرچہ چند جامعات میں اس جدید علم کے تربیت یافتہ چند اساتذہ موجود ہیں لیکن ان جامعات میں بھی محض تعارفی لسانیات ہی پڑھائی جاتی ہے اور اس کے تفصیلی تشریحی مطالعہ کے علاؤہ لسانیات کی دیگر اہم شاخوں کی جانب توجہ نہیں دی جارہی ہیں- ترقی یافتہ دنیا میں اس علم کی شہرت اور تحقیق نے سماجیات،نفسیات ،فلسفہ اور علم الانسان کے علماء،اساتذہ اور بات چیت میں عیب،نقص اور بت ترتیبی کو سدھارنے کی کوشش کرنے والے علماء (speech therapists) کے علاؤہ دیگر بیشتر ماہرین سماجی سائنس کو احساس دلایا ہے کہ زبان ان کے امور زندگی کی تمام مصروفیات میں بڑا اور اہم مقام رکھتی ہے لیکن جب انھوں نے اس علم سے متعلق مزید تحقیق کی تو انھیں محسوس ہوا کہ لسانیات کا موضوع دقیق،تکینکی اور کسی قدر محدود قسم کا ہے،،
جبکہ عباس نئیر اسے ادبی تصورات اور زندہ سوالات کے ساتھ ایک مثہور زمانہ ادبی صنف پارے و ڈرامے کی کہانی بیان کرتے ہوئے اس مقدمے کا جائزہ لیتے ہیں کہ مادری زبانوں کا عالمی دن ہے،جسے اس صدی کے آغاز سے منایا جانے لگا ہے۔یہ دن ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کا ہر سال موقع دیتا ہے ، اور ہمیں مادر ی زبانوں کے مسئلے کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔اس دن کا راست تعلق ہم پاکستانیوں سے ہے۔تاریخ اکیس فروری 1952 ،مقام ڈھاکایونیورسٹی ، موجودہ بنگلہ دیش۔ طلبا اپنے لسانی حق کے لئے احتجاج کررہے ہیں۔ پانچ سال پہلے نو آبادیاتی زنجیروں کو توڑکر وجود میں آنے والی ریاست، نوآبادیاتی جبر سے کام لیتی ہے۔ احتجاج کرنے والوں کی زبانوں کو خاموش کرانے کی خاطر ان پر گولی چلاتی ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ مادری زبان کو تسلیم کرانے کی خاطر چند نوجوان اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں ۔مادری یا نیٹو زبان کی اہمیت کیا ہوتی ہے اور اس سے محرومی کا انسانوں کی سیاسی ، ثقافتی ، تعلیمی ہی نہیں ،ان کی نفسی زندگی پر کیا اثرپڑتا ہے،یہ بیسویں صدی کی لسانیات ہی کا نہیں،ادب کا بھی اہم موضوع بنا ہے۔گلوبلائزیشن کے عہد میں،اقوامِ متحدہ کی جانب سے 21 فروری کا دن’’ مادری زبانوں کے عالمی یوم‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یونیسکو(UNESCO)کے بورڈ آف گورنرز کی عمومی کانفرنس کی جانب سے 2نومبر 2001ء کو ایک اعلامیہ جاری ہوا، جس میں کہا گیا کہ ’’ہر انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند، خصوصاً اپنی مادری زبان میں اپنے خیالات اور تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار اور پرچار کرے۔ تمام انسان ایسی معیاری تعلیم و تربیت کا حق رکھتے ہیں، جس کے ذریعے اُن کی ثقافت کی شناخت ہو سکے۔‘‘ گلوبلائزیشن کے ہنگامہ خیز دَور میں جہاں ایک طرف سرمائے نے جغرافیائی سرحدیں عبور کرلیں، وہیں دوسری طرف، قومی ثقافتوں کی بقا و فنا کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ خصوصاً اُن ممالک میں یہ مسئلہ زیادہ نمایاں ہے، جہاں قومی زبانیں حکومتوں کی بدسلوکی اور عوام کی لاپروائی کا شکار ہیں۔
بعض قومی زبانوں (مادری زبانوں) کو علاقائی زبانیں کہا جاتا ہے اور اُنھیں دوسرے، تیسرے درجے کی حیثیت دی گئی ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں بھی صُورتِ حال کچھ ایسی ہی ہے۔ تعلیمی اور سرکاری اداروں میں یہ زبانیں شجرِممنوعہ قرار پائی ہیں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی اُن پر غیر اعلانیہ پابندی عائد ہے، تو ظاہر ہے کہ جو زبان ذریعۂ تعلیم نہ ہو، معاش اور ملازمت کی ضرورت بھی نہ ہو اور ذرائع ابلاغ میں کسی بنیادی اہمیت کی حامل نہ ہو، وہ کس طرح ترقّی کر سکے گی اور زندہ رہ پائے گی۔ اہلِ فہم و دانش کہتے ہیں کہ بچّے کی ذہنی نشوونما، ترقّی، تعلیم اور تربیت مادری زبان ہی کے ذریعے اچھی ہو سکتی ہے۔
نیز، ماہرین اس بات پر بھی متفّق ہیں کہ بچّوں کی اُس زبان میں تعلیم و تربیت ہونی چاہیے، جس میں وہ خواب دیکھتے ہیں۔اور ظاہر ہے کہ خواب ،مادری زبان ہی میں دیکھے جاتے ہیں۔ دنیا کی تمام مہذب اور ترقّی یافتہ اقوام عملی طور پر اپنے بچّوں کو یہ حق دے چُکی ہیں۔
ایّوب خان کے دورِ حکومت میں قائم کردہ’’ قومی تعلیمی کمیشن‘‘ نے بھی بچّوں کو مادری زبان میں تعلیم دینے کی سفارش کی، تاہم اس سفارش پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 251کی تیسری شق کے تحت صوبوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ قومی زبان اُردو کے ساتھ، صوبائی زبانوں کی ترقّی، استعمال اور تعلیم کے لیے مناسب قوانین وضع کر سکتے ہیں۔ اسی شق کے تحت سندھ میں سندھی زبان نہ صرف تعلیمی بلکہ دفتری زبان قرار پائی، لیکن پشتو ،بلوچی ، براھوئی، پنجابی، سرائیکی اور دیگر علاقائی زبانیں اب تک اُس آئینی حق سے تاحال محروم رکھے گئے ہیں_
پروفیسر اسٹیفن اے وورم کی تحقیقی کتاب’’Atlas of the world’s languages in danger of disappearing‘‘میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں کم و بیش 6ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں،جن میں آدھی سے زیادہ اب ختم ہوتی جارہی ہیں،،
E,C,O,L
تعلیم اپنی زبان میں مومنٹ نے ,,,
آؤ! اپنے بچوں کو اپنی زبان میں پڑھائیں،،
کے سلوگن کے تحت تعلیمی زبان کی مجوزہ پالیسی کہ بلوچستان اور مجموعی طور پر پورے ملک کے لئے تعلیمی زبان کی مجوزہ پالیسی کے خدو خال درج ذیل ممکنہ ہوسکتےہیں
01!:
تعلیمی زبان کا انتخاب لسانی کثافت کی بنیاد پر کیا جائے گا،
02!:
ایک بڑے لسانی علاقے میں اسی علاقے کی بڑی زبان تعلیمی زبان ہوگی،
03!:
ایک بڑے لسانی علاقے میں آباد چھوٹے لسانی گروہ کے بچے اس مخصوص علاقے کی بڑی زبان میں تعلیم حاصل کریں گے اگر وہ بچے سکول میں داخلے کے وقت اس علاقے کی بڑی زبان بول سکتے ہوں،
04!:
کسی شہر یا بڑے لسانی علاقے میں موجود بیس فیصد سے زیادہ لسانی کثافت والی چھوٹی لسانی گروہ کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ علاقے کی بڑی زبان میں تعلیم حاصل کریں یا پھر اپنی مادری زبان میں_ اس کے لئے انھیں سکول اور مکمل تعلیمی سہولیات اور ماحول فراہم کیاجائے گا،
05:!
کسی شہر یا علاقے میں باہر سے آئے ہوئے بچے جو اس مخصوص علاقے کی بڑی زبان نہیں بول سکتے ان کے لئے الگ سے ان کی آبادی کے لحاظ سے کوئی نیشنل یا انٹرنیشنل سکول/ کالج یا یونیورسٹی قائم کی جائے گی جو کہ کسی قومی یا بین الاقوامی زبان میں تعلیم دیں گے_
06!:
کسی بڑے لسانی علاقے میں چھوٹے لسانی گروہ کے بچے و استاد کو اپنی زبان میں پڑھنے کا اختیار دیا جائے تاکہ ان کی زبان و کلچر محفوظ رہے،،
بنیادی مشکل معلومات اور تصورات کی تفہیم و تشریح نہیں ہیں بلکہ پولیٹیکل ول یعنی سیاسی عزم و استقلال ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بنیادی حقوق و ترجیحات کا تعین کرنے میں بھی مسائل اور ذہنی مشکلات رہتے ہیں حالانکہ کوئٹہ میں انسٹی ٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ اسٹیڈیز اینڈ پریکٹسزIDSP نے فروری 2003 ء میں ,,,گلوبلائزیشن اور مادری زبانیں،،چیلنجز اور مواقع کے عنوان سے قومی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا جس کے معنی خیز اور معتبر سفارشات کتابی صورت میں شائع ہمارے فاضل دوست جناب عارف تبسم نے مرتب کرکے شائع کئے ہیں لیکن اٹھارہ بیس سال گزرنے کے باوجود ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکا ہے ،اصل سوال پولیٹیکل ول اور سیاسی عزم و ہمت کی ہے جس بیدار و توانا کرنے کی ضرورت ہے،،
اس قیمتی بحث ومباحثہ اور تحقیق و جستجو کو ہم مرحوم دوست اور انتہائی زیرک ادیب ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ کے مادری زبان پر پشتو شعر سے اختتام پذیر کرتے ہیں کہ
مورنی ژبہ
( مادری زبان)
بببراسولی می دہ مور، مورنی ژبہ
سہ عظمت زما د کور، مورنی ژبہ
پہ ھر اڑخ کیسی د ژوندون بہ ویی ناکامہ
چی کوم چوک گڑیی پیغور ، مورنی ژبہ،،،
کرونا وائرس کی ہولناکیوں تک سماجی انصاف و عوامی ترقی و خوشحالی کا نہ ہونا ایسا سلگتا سوال ہے کہ اس کا مناسب جواب تلاش کئے بغیر چارہ نہیں ہے،بھلا اپنے ماں باپ کی بولی یعنی مادری زبان کے لئے بھی تحفظ و احترام درکار ہوتا ہے یہی تو وہ بنیادی انسانی حق ہے جسے بغیر احتجاج و فریاد کے بھی احترام و اہمیت اور تحفظ و کامیابی حاصل ہونا چاہئے،، لیکن قصہ کوتاہ بینی کے خاطر ہم اب تک اپنے ہی ملک یعنی مشرقی پاکستان کے قضیے اور بنگلہ دیش کے قیام سے کوئی سبق اور عبرت حاصل نہیں کرسکے، ملک کے دوسرے حصوں کی طرح کوئٹہ میں بھی 21 فروری کے عالمی مدد لینگویجز ڈے کے موقع پر مختلف الخیال افراد و ادارےعلمی و فکری اور تہذیبی و لسانی ارتقاء و دانش کے متعلق پروگرام منعقد کرتے ہیں جس کے تفصیلات اور ممکنہ منصوبے و تجزیوں سے آگاہی دینے کی کوشش ہوتی ہیں ، مثبت بحث و مباحثے اور علمی و فکری مکالمے کی کاوشوں سے سماج و قوم میں سھبنلے اور شعور کی بیداری پیدا ہوسکے گا۔
یہ بھی دیکھئے:
اس اہم ترین موضوع پر مرزا خوشی محمد جاوید راقم طراز ہیں کہ ,,, لسانیات اپنے وسیع مفہوم میں سماجی علم ہے زبان سماجی تشکیل ہے لسانیات اس تشکیل کی نوعیت اور اس میں کارفرما قوانین اور اس کے ارتقاء کا مطالعہ کرتی ہے،ہر چند لسانیات دیگر سماجی علوم کے مقابلے میں کم عمر سہی لیکن اس کے سائنسی و علمی طریق کار کی بدولت مستقبل میں اس کے معیارات اور پیمانے زبانوں کو انسانی تعلقات میں نئی مرکزیت اور اہمیت دلائیں گے یہی سبب ہے کہ دینا بھر میں وقت کے ساتھ ساتھ لسانیات کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ آج دینا میں سماجی تعلقات جدید مواصلاتی دور ( communication Age) کے باعث تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں،،جبکہ کوئٹہ سے زبانوں کے امور کے ماہر تعلیم جناب عطاء الحق زیرک نے سال کرونا وائرس یعنی 2020 ء میں اپنے تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ,, تعلیمی زبان کا غلط انتخاب، تیسری دینا کے پانچ ارب انسانوں کا المیہ،،کے عنوان سے پبلش کرتے ہوئے دیباچہ میں پڑھنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے لکھتے ہیں کہ,,ہم جانتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے کامیاب تعلیمی نظام کی وجہ سے کتنی ترقی کررہے ہیں ان کے ہاں یہ کامیاب تعلیمی نظام اس وجہ سے ہے کہ وہاں یہ ابہام بالکل بھی نہیں پائی جاتی کہ بچوں کو کس زبان میں تعلیم دی جائے انھوں نے اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے لئے درست اور منطقی تعلیمی زبان یعنی اپنی مادری زبانیں منتخب کئے اور ان کے ہاں اسی وجہ سے بہترین تعلیمی نظام پائے جاتے ہیں اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ دوسری جانب تیسری دنیا کے ملکوں کے ناکام تعلیمی نظام ان ممالک کی ترقی میں بڑی روکاوٹ ہیں اور ان ممالک کے تعلیمی نظام اس لئے بدترین تعلیمی نظام ہیں کہ انھوں نے اپنے بچوں کو پڑھانے کے لئے درست اور منطقی تعلیمی زبان کا انتخاب نہ کیا،
ترقی یافتہ دینا میں تعلیمی زبان،دفتری زبان،قومی زبان،علاقائی زبان،بین الاقوامی زبان،مزہبی رسوم کی زبان،سائنس و ٹیکنالوجی کی زبان،تحقیق و تخلیق کی زبان کی باقاعدہ پہچان اور ان کا مختلف مقاصد کے لئے استعمال سے آگاہی تعلیمی ماہرین کے لئے تعلیمی پالیسی بناتے وقت بہت کارآمد ہوتی ہے اور ان ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی ماہرین اور تعلیمی منصوبہ ساز کسی ملک میں تعلیمی زبان کے جغرافیائی حدود سے بھی واقف ہوتے ہیں کہ تعلیمی زبان کے حوالے سے ایک علاقہ،ملک،صوبہ یا قصبہ یا پھر دیہات کے لئے کونسی تعلیمی پالیسی بنائی جائے کہ وہاں کے بچے بغیر کسی زبان کی روکاوٹ (Language barrier) کے تعلیمی اداروں میں علم حاصل کرتے رہے،مگر بدقسمتی سے تیسری دنیا کے ممالک میں نہ تو زبان کی مقاصد کے لحاظ سے الگ الگ پہچان ہو پا رہی ہے اور نہ ہی تعلیمی زبان کے حوالے سے مختلف جغرافیائی ڈیویزنز کی تعریف کی گئی ہے جو یقننا ایک کامیاب تعلیمی پالیسی بنانے میں بڑی روکاوٹ ہیں_
یہ بھی دیکھئے:
طنز و مزاح کی دنیا اور آج کل کے مزاحیہ پروگرام
اکیس فروری: آج اردو کے نامور محقق مشفق خواجہ کا یوم وفات ہے
اطہر متین احمد: کراچی ڈائری کا آخری ورق
مزاح نگاری کا فوجی مزاج: کاکولیات
پروفیسر عطاء الحق زیرک نے اپنے تحقیقی مقالہ میں تیسری دنیا کے ممالک کے لئے تعلیمی زبان کے قابل عمل ماڈلز پیش کئے ہیں جو کہ دینا کے ترقی یافتہ ممالک کے کامیاب تعلیمی زبان کے ماڈلز کو مدنظر رکھ کر بنائے گئے ہیں_وہ لکھتے ہیں کہ مختلف ذرائع سے تحقیقی مواد کے حصول کے دوران میری یہ سوچ مسلسل تقویت پاتی رہی کہ یقنیا ترقی یافتہ قوموں کی تعلیمی ترقی کا راز تعلیمی زبان کے درست انتخاب میں ہے اور ان قوموں کی معاشی ترقی تعلیمی ترقی کی وجہ سے ہے میری یہ سوچ یقننا تیسری دنیا کے ماہرین تعلیم کے لئے مزید تحقیق کے دروازے کھولنے کا باعث بن سکتی ہے،،،جبکہ اپنے تحقیقی کتاب ,,,لسانیات تا سماجی لسانیات ،،،میں ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو لکھتے ہیں
,,, کہ گزشتہ تیس برسوں کے دوران علم اللسان یعنی زبان کے علم کا زمان و مکان،ہیئت اور مختلف شاخوں کے حوالے سے باالترتیب مطالعہ وقت کی ضرورت اور فکر لازم کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اس علم نے تیزی سے پھیل کر اس قدر مقبولیت حاصل کی ہے کہ دینا کی بیشتر اہم جامعات اسے گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کے نصابوں میں شامل کرکے مکمل اسناد دے رہی ہیں_ ترقی یافتہ دینا کے برعکس پاکستان میں اس علم سے متعلق تا حال سنجیدگی سے نہیں سوچا گیا ہے اگرچہ چند جامعات میں اس جدید علم کے تربیت یافتہ چند اساتذہ موجود ہیں لیکن ان جامعات میں بھی محض تعارفی لسانیات ہی پڑھائی جاتی ہے اور اس کے تفصیلی تشریحی مطالعہ کے علاؤہ لسانیات کی دیگر اہم شاخوں کی جانب توجہ نہیں دی جارہی ہیں- ترقی یافتہ دنیا میں اس علم کی شہرت اور تحقیق نے سماجیات،نفسیات ،فلسفہ اور علم الانسان کے علماء،اساتذہ اور بات چیت میں عیب،نقص اور بت ترتیبی کو سدھارنے کی کوشش کرنے والے علماء (speech therapists) کے علاؤہ دیگر بیشتر ماہرین سماجی سائنس کو احساس دلایا ہے کہ زبان ان کے امور زندگی کی تمام مصروفیات میں بڑا اور اہم مقام رکھتی ہے لیکن جب انھوں نے اس علم سے متعلق مزید تحقیق کی تو انھیں محسوس ہوا کہ لسانیات کا موضوع دقیق،تکینکی اور کسی قدر محدود قسم کا ہے،،
جبکہ عباس نئیر اسے ادبی تصورات اور زندہ سوالات کے ساتھ ایک مثہور زمانہ ادبی صنف پارے و ڈرامے کی کہانی بیان کرتے ہوئے اس مقدمے کا جائزہ لیتے ہیں کہ مادری زبانوں کا عالمی دن ہے،جسے اس صدی کے آغاز سے منایا جانے لگا ہے۔یہ دن ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کا ہر سال موقع دیتا ہے ، اور ہمیں مادر ی زبانوں کے مسئلے کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔اس دن کا راست تعلق ہم پاکستانیوں سے ہے۔تاریخ اکیس فروری 1952 ،مقام ڈھاکایونیورسٹی ، موجودہ بنگلہ دیش۔ طلبا اپنے لسانی حق کے لئے احتجاج کررہے ہیں۔ پانچ سال پہلے نو آبادیاتی زنجیروں کو توڑکر وجود میں آنے والی ریاست، نوآبادیاتی جبر سے کام لیتی ہے۔ احتجاج کرنے والوں کی زبانوں کو خاموش کرانے کی خاطر ان پر گولی چلاتی ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ مادری زبان کو تسلیم کرانے کی خاطر چند نوجوان اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں ۔مادری یا نیٹو زبان کی اہمیت کیا ہوتی ہے اور اس سے محرومی کا انسانوں کی سیاسی ، ثقافتی ، تعلیمی ہی نہیں ،ان کی نفسی زندگی پر کیا اثرپڑتا ہے،یہ بیسویں صدی کی لسانیات ہی کا نہیں،ادب کا بھی اہم موضوع بنا ہے۔گلوبلائزیشن کے عہد میں،اقوامِ متحدہ کی جانب سے 21 فروری کا دن’’ مادری زبانوں کے عالمی یوم‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یونیسکو(UNESCO)کے بورڈ آف گورنرز کی عمومی کانفرنس کی جانب سے 2نومبر 2001ء کو ایک اعلامیہ جاری ہوا، جس میں کہا گیا کہ ’’ہر انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند، خصوصاً اپنی مادری زبان میں اپنے خیالات اور تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار اور پرچار کرے۔ تمام انسان ایسی معیاری تعلیم و تربیت کا حق رکھتے ہیں، جس کے ذریعے اُن کی ثقافت کی شناخت ہو سکے۔‘‘ گلوبلائزیشن کے ہنگامہ خیز دَور میں جہاں ایک طرف سرمائے نے جغرافیائی سرحدیں عبور کرلیں، وہیں دوسری طرف، قومی ثقافتوں کی بقا و فنا کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ خصوصاً اُن ممالک میں یہ مسئلہ زیادہ نمایاں ہے، جہاں قومی زبانیں حکومتوں کی بدسلوکی اور عوام کی لاپروائی کا شکار ہیں۔
بعض قومی زبانوں (مادری زبانوں) کو علاقائی زبانیں کہا جاتا ہے اور اُنھیں دوسرے، تیسرے درجے کی حیثیت دی گئی ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں بھی صُورتِ حال کچھ ایسی ہی ہے۔ تعلیمی اور سرکاری اداروں میں یہ زبانیں شجرِممنوعہ قرار پائی ہیں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی اُن پر غیر اعلانیہ پابندی عائد ہے، تو ظاہر ہے کہ جو زبان ذریعۂ تعلیم نہ ہو، معاش اور ملازمت کی ضرورت بھی نہ ہو اور ذرائع ابلاغ میں کسی بنیادی اہمیت کی حامل نہ ہو، وہ کس طرح ترقّی کر سکے گی اور زندہ رہ پائے گی۔ اہلِ فہم و دانش کہتے ہیں کہ بچّے کی ذہنی نشوونما، ترقّی، تعلیم اور تربیت مادری زبان ہی کے ذریعے اچھی ہو سکتی ہے۔
نیز، ماہرین اس بات پر بھی متفّق ہیں کہ بچّوں کی اُس زبان میں تعلیم و تربیت ہونی چاہیے، جس میں وہ خواب دیکھتے ہیں۔اور ظاہر ہے کہ خواب ،مادری زبان ہی میں دیکھے جاتے ہیں۔ دنیا کی تمام مہذب اور ترقّی یافتہ اقوام عملی طور پر اپنے بچّوں کو یہ حق دے چُکی ہیں۔
ایّوب خان کے دورِ حکومت میں قائم کردہ’’ قومی تعلیمی کمیشن‘‘ نے بھی بچّوں کو مادری زبان میں تعلیم دینے کی سفارش کی، تاہم اس سفارش پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 251کی تیسری شق کے تحت صوبوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ قومی زبان اُردو کے ساتھ، صوبائی زبانوں کی ترقّی، استعمال اور تعلیم کے لیے مناسب قوانین وضع کر سکتے ہیں۔ اسی شق کے تحت سندھ میں سندھی زبان نہ صرف تعلیمی بلکہ دفتری زبان قرار پائی، لیکن پشتو ،بلوچی ، براھوئی، پنجابی، سرائیکی اور دیگر علاقائی زبانیں اب تک اُس آئینی حق سے تاحال محروم رکھے گئے ہیں_
پروفیسر اسٹیفن اے وورم کی تحقیقی کتاب’’Atlas of the world’s languages in danger of disappearing‘‘میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں کم و بیش 6ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں،جن میں آدھی سے زیادہ اب ختم ہوتی جارہی ہیں،،
E,C,O,L
تعلیم اپنی زبان میں مومنٹ نے ,,,
آؤ! اپنے بچوں کو اپنی زبان میں پڑھائیں،،
کے سلوگن کے تحت تعلیمی زبان کی مجوزہ پالیسی کہ بلوچستان اور مجموعی طور پر پورے ملک کے لئے تعلیمی زبان کی مجوزہ پالیسی کے خدو خال درج ذیل ممکنہ ہوسکتےہیں
01!:
تعلیمی زبان کا انتخاب لسانی کثافت کی بنیاد پر کیا جائے گا،
02!:
ایک بڑے لسانی علاقے میں اسی علاقے کی بڑی زبان تعلیمی زبان ہوگی،
03!:
ایک بڑے لسانی علاقے میں آباد چھوٹے لسانی گروہ کے بچے اس مخصوص علاقے کی بڑی زبان میں تعلیم حاصل کریں گے اگر وہ بچے سکول میں داخلے کے وقت اس علاقے کی بڑی زبان بول سکتے ہوں،
04!:
کسی شہر یا بڑے لسانی علاقے میں موجود بیس فیصد سے زیادہ لسانی کثافت والی چھوٹی لسانی گروہ کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ علاقے کی بڑی زبان میں تعلیم حاصل کریں یا پھر اپنی مادری زبان میں_ اس کے لئے انھیں سکول اور مکمل تعلیمی سہولیات اور ماحول فراہم کیاجائے گا،
05:!
کسی شہر یا علاقے میں باہر سے آئے ہوئے بچے جو اس مخصوص علاقے کی بڑی زبان نہیں بول سکتے ان کے لئے الگ سے ان کی آبادی کے لحاظ سے کوئی نیشنل یا انٹرنیشنل سکول/ کالج یا یونیورسٹی قائم کی جائے گی جو کہ کسی قومی یا بین الاقوامی زبان میں تعلیم دیں گے_
06!:
کسی بڑے لسانی علاقے میں چھوٹے لسانی گروہ کے بچے و استاد کو اپنی زبان میں پڑھنے کا اختیار دیا جائے تاکہ ان کی زبان و کلچر محفوظ رہے،،
بنیادی مشکل معلومات اور تصورات کی تفہیم و تشریح نہیں ہیں بلکہ پولیٹیکل ول یعنی سیاسی عزم و استقلال ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بنیادی حقوق و ترجیحات کا تعین کرنے میں بھی مسائل اور ذہنی مشکلات رہتے ہیں حالانکہ کوئٹہ میں انسٹی ٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ اسٹیڈیز اینڈ پریکٹسزIDSP نے فروری 2003 ء میں ,,,گلوبلائزیشن اور مادری زبانیں،،چیلنجز اور مواقع کے عنوان سے قومی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا جس کے معنی خیز اور معتبر سفارشات کتابی صورت میں شائع ہمارے فاضل دوست جناب عارف تبسم نے مرتب کرکے شائع کئے ہیں لیکن اٹھارہ بیس سال گزرنے کے باوجود ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکا ہے ،اصل سوال پولیٹیکل ول اور سیاسی عزم و ہمت کی ہے جس بیدار و توانا کرنے کی ضرورت ہے،،
اس قیمتی بحث ومباحثہ اور تحقیق و جستجو کو ہم مرحوم دوست اور انتہائی زیرک ادیب ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ کے مادری زبان پر پشتو شعر سے اختتام پذیر کرتے ہیں کہ
مورنی ژبہ
( مادری زبان)
بببراسولی می دہ مور، مورنی ژبہ
سہ عظمت زما د کور، مورنی ژبہ
پہ ھر اڑخ کیسی د ژوندون بہ ویی ناکامہ
چی کوم چوک گڑیی پیغور ، مورنی ژبہ،،،