16 دسمبر کی سرد شام حق دو تحریک کا دھرنا ختم ہوا۔ اہلیان گوادر و مکران ڈویژن نے مسلسل تین ماہ کے احتجاج کیا۔ اور 31 دن کے مسلسل دھرنا دیا۔ دھرنے کا اختتام وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالدقدوس بزنجو کے ساتھ مذاکرات و وزراء کرام کی موجودگی میں حق دو تحریک کے لیڈر مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے کیا۔
تحریری صورت میں معاہدہ اس احتجاج و دھرنے کا بظاہر سب سے کمزور و ناتواں پہلو ہے۔ کیونکہ اس معاہدے کے نتیجے میں کوئی ایک مسئلہ بھی حقیقت میں حل نہیں کیا گیا ہے۔ اس معاہدے کو محض ایک روایتی تسلی ہی دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
گوادر : بلوچستان کا ہر طبقہ حق دو تحریک کی پشت پر آگیا
گوادر حقوق تحریک اصل میں ہے کیا؟
سترہ دسمبر: آج معروف مصنف اور اداکار کمال احمد رضوی کا یوم وفات
سرحدی تجارت
بارڈر ٹریڈ صوبے کے نصفِ اضلاع کا براہ راست اور بقیہ نصف صوبے کی بالواسطہ طور پر معاشی کمر توڑنے کے مترداف ہے۔ اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ کو اختیار منتقلی کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ یہ ایسا اختیار ہے جو بلوچستان جیسے صوبہ میں صوبائی حکومت کا دائرہ کار میں بھی عملاً نہیں آتا۔
یہ مسلئہ گوادر سے زیادہ دیگر علاوں کا ہے۔ ان علاقوں میں تربت و پنجگور اور تفتان و ماشکیل، نوشکی و چمن شامل ہیں۔ ان علاقوں میں کاکڑ خراسان و ژوب کے ساتھ لورالائی و برشور اور مسلم باغ و قلعہ سیف اللہ بھی شامل ہیں۔ یہ مسئلہ اختیارات و رویوں کی تشکیل و تعبیر نو کے ساتھ ساتھ تہذیبی و ثقافتی تبدیلیوں اور قانون سازی و بنیادی ترمیمات کا ہے۔ جس پر صوبائی اسمبلی میں موجود جماعتوں و صوبائی قیادتوں نے چھپ ساد لیا ہوا ہے۔
ماہی گیری اور قانون سازی
گوادر کا بنیادی مسئلہ ماہی گیری کے اوپر ایک سانچہ ترتیب دینے اور تعمیری ماحول میں وسیع و مفید قانون سازی کرنے سے متعلق تھا۔ لیکن اس کے بجائے یہ تان ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی ذمہ داری اور ٹرانسفر پر ٹوٹی ہے۔ یعنی حقیقی معنوں میں کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔
چیک پوسٹوں کا مسئلہ پورے صوبے کے لئے درد سر بنا ہؤا ہے۔ بلکہ کوئٹہ سے پنجاب و خیبر پختونخوا اور کراچی و کشمیر کا سفر کیا جائے تو یہی عذاب سر پر ہوتا ہے۔ ایک رات کے سفر میں دس پندرہ دفعہ شناختی کارڈ دکھانے جیسے فضول عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔
مالکانہ حقوق و مفادات
ان مسائل اور سیاسی نعروں سے بڑھ کر سب سے بڑا اور اہم ترین مقدمہ تو خود گوادر شہر اور پورٹ کے قریب قریب پرانے شہر کے علاقوں کا ہے۔ یہ وہ بستیاں ہیں جہاں دھرنا دیا گیا تھا۔ اس کی قانونی حیثیت کے تعین اور مالکانہ حقوق و مفادات کے تحفظ کے لئے قانون سازی ضرورت تھی۔ جوہری نوعیت کی آئینی ترمیم کا شائد گوادر کے حق مانگنے والی ٹیم کو خیال آیا۔ اس لئے فتح و شکست کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ سمجھداری کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ مجموعی طور پر 31 دن کا دھرنا پر امن و پرجوش رہا۔ یہ دھرنا ایک مثبت و قابل قدر جدوجھد و جستجو کا نیا عنوان بنا۔ البتہ اتنی زیادہ توقعات اور عنوانات سجا کر کم ہی کچھ حاصل کیا گیا۔
دھرنے میں شریک نوجوانوں اور طلباء وطالبات اور خواتین و بزرگوں کا عزم و استقلال جواں رہا۔ جماعت اسلامی عرصے کے بعد مکران ڈویژن میں عوامی پارٹی کے طور پر ابھری۔ جس کے لئے پندرہ بیس سالوں سے مسلسل محنت شاقہ ہوتی رہی سب سے تشویشناک صورتحال قوم پرستوں اور خاص کر دوسروں کے کندھوں پر گولیاں چلانے والی ترقی پسند تحریک و دانش وروز بڑے خسارے میں رہے۔ جن کے پوسٹ مارٹم اور گہرے تجزیے کی ابھی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور سردار اختر مینگل دھرنے کے متعلق خاموش رہے۔ البتہ جماعت اسلامی کے مرکزی صدر سراج الحق سمیت لیاقت بلوچ اور امیر العظیم تینوں گوادر دھرنے میں حاضر ہوئے۔
غیر حقیقی توقعات
میڈیا کوریج بھرپور رہی۔ ایک لاکھ ابادی سے بھی کم چھوٹے سے شہر کے احتجاج سے بہت زیادہ توقعات باندھی گئیں۔ اب دیکھیں مناسب جدوجھد آگے کیسے بڑھتی ہے۔ بظاہر تو صوبائی حکومت کے ایما پر دھرنا ختم ہو گیا۔ لیکن ابھی اس دھرنے کے اثرات مرتب کرنے کے لئے کتنا انتظار کیا جاسکتا ہے؟ کیا خبر اس کے بعد چمن اور تفتان بارڈر پر بھی ایسے ہی منصوبہ بند دھرنوں کی ضرورت پڑے۔
یہ اور اس طرح کے مباحث و سوالات ابھرنے والے ہیں۔ البتہ گوادر و مکران کے ساحلی علاقوں میں ضروریات زندگی کی ضرورت پوری کردی گئی تو ہم اسے بڑی تبدیلی سمجھیں گے۔ ابھی جمہور کی حکمرانی اور مظلوموں کی داد رسی کے لئے نئی پ ترقیاتی اپروچ کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے منصفانہ سماجی شعور کی بیداری و دانش مندی بھی ناگزیر ہے۔ ورنہ تبدیلی اور ممکنات کے مواقع ضائع ہو جائیں گے۔