بلوچستان کے ساحلی علاقے گوادر ان دنوں خبروں کے زد میں ہے۔ جماعت اسلامی کے صوبائی سیکرٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کی تحریک قومی مکالمے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ جماعت اسلامی کے سراج الحق اور امیر العظیم کے بعد آج لیاقت بلوچ بھی گوادر پہنچے۔ وزیر اعظم کے نوٹس لینے کے بعد چیف سیکرٹری بلوچستان بھی گوادر پہنچے ہیں۔ اب دیکھیں کیا پیش رفت ہوتی ہے۔ لگتا ہے کہ لیاقت بلوچ اور چیف سیکرٹری بلوچستان کے درمیان بات چیت کامیاب ہو جائے گی۔ویسے مذاکرات کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان اور مرکزی حکومت عوام کے مسائل کے حل پر آمادہ ہو جائیں۔
یہ بھی پڑھئے:
چودہ دسمبر: آج حضرت جون ایلیا کی سال گرہ ہے
ممتاز قادری کو سزائے موت، کیا صدر ممنون سزا پر عمل درآمد نہیں چاہتے تھے
یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ گوادر دھرنے کے منتظم ہدایت الرحمان بلوچ ایک سخت گیر مزاکرات کار ہیں۔ وہ دھرنے کے اسٹیج پر عوام کے سامنے مزاکرات کرتے ہیں۔ ہماری مقتدرہ کے لئے یہی سب سے بڑی مشکل ہے۔ لیکن مولانا ہدایت جو کچھ کر رہے ہیں، وہ حالات کا تقاضا ہے۔
مولانا ہدایت الرحمٰن اور ان کے ساتھیوں کی بہادری اور حوصلہ مندی کا نتیجہ مثبت ہے۔ اب صوبے کا ہر طبقہ مولانا اور ان کی تحریک کے حق میں آواز اٹھا رہا ہے۔ یہی اس تحریک کی کامیابی ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی اس سلسلے میں تحفظات بھی ہیں۔ ایک قوم پرست نے لکھا ہے کہ مولانا ہدایت الرحمان کا ساتھ دینا چاہیے ـ ہر فورم پر اس عوامی جدوجہد کی حمایت کرنی چاہیے ـ لیکن یہ حمایت غیرمشروط نہیں ہونی چاہیے ـ بلوچ اپنی آنکھیں ہمیشہ کھلی رکھیں۔ کیوں کہ انھیں کسی البدری، الشمسی، انصافی یا فوجی خواہشات کی بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا۔