جغرافیائی اعتبار و اہمیت کے حامل پاکستان کی سب سے بڑی وفاقی اکائی اور افغانستان و ایران کے سنگم پر واقع پختونوں و بلوچوں کے مشترکہ مسکن بلوچستان میں سابقہ تلخ تجربات و حوادث کی طرح اس وقت پھر جمہوریت کے نام پر زوردار دھماکے کی طرح جمہوری تماشا دیکھنے کے قابل ہے جناب!!! بلوچ قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے اپوزیشن جماعتوں جمعیت علمائے اسلام ف اور ایک نشست رکھنے والی محمود خان اچکزئی صاحب کی پارٹی پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے ساتھ مل کر 65 کے ایوان یعنی صوبائی اسمبلی میں 16 / 17 ممبران اسمبلی کے بل بوتے پر وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب جام کمال خان عالیانی کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد لائے ہیں۔
اب تماشا دیکھنے کے قابل ہے کہ اپوزیشن جماعتوں سے زیادہ سرکاری پارٹی ,,باپ،، پارٹی میں سنگین نوعیت کے اختلاف کھل کر سامنے آئے ہیں وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب جام کمال خان عالیانی صاحب صوفی منش اور عدم بیزار لیڈر ہیں وہ نوازائیدہ بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی صدر بھی ہیں اور ان کے ساتھ پارٹی کے سیکرٹری جنرل سینٹر منظور کاکڑ،بانی راہنما سینٹر سعید احمد ہاشمی اور انتہائی زیرک و دانش مند شخصیت جناب محمد صادق سنجرانی صاحب بھی چیئرمین سینیٹ کے طور پر اسلام آباد میں براجمان ہیں۔ اس لئے وزیر اعلیٰ بلوچستان اس نزاکت کو نہیں سمجھے اور نہ ہی اس گلے و شکوے کے لئے بطور وزیر اعلیٰ کوئی طریقہ کار وضع کرسکیے ہیں کہ پارٹی کے مرکزی صدر ہونے کے ناطے انھیں مناسب وقت اور حالات کے نزاکتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اقدامات کی ضرورت ہے ۔عام آدمی کے لئے شہزادوں کا دیدار ویسے ممکن نہیں ہے مگر یہاں تو وزراء کرام،ممبران اسمبلی و معززین کے لئے بھی دروازے بند کئے گئے تھے جن پر جام کمال خان صاحب کو ناز تھا اور جو ان کے مشیر وزیر تھے ، وہ بڑے کچے ثابت ہورہے ہیں اس طرح وزیر اعلیٰ بلوچستان سے ملاقات اور معاملات تک رسائی ناممکن بنادی گئی ہے اسلئے بند راستے پانے کے باعث وزیر اعلیٰ کی شخصیت و کردار متنازع بنانا شروع ہوگیا اور رفتہ رفتہ معاملات سلجھانے کے بجائے الجھ کر ہی رہ گئے ہیں اور آج عملاً باپ پارٹی کے ممبران اسمبلی و معززین اپنے مرکزی صدر و شھزادہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف توانائی و دانش مندی استعمال کررہے ہیں میر عبدالقدوس بزنجو صاحب نے نواب ثناءاللہ زہری صاحب اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صاحب کی حکومت کے خلاف بھی یہی کارروائی کی تھی اور جناب کنگ میکر پاکستان آصف علی زرداری صاحب پشت پر تھا اور آج بھی زرداری صاحب پیچھے سے آگاہ ہیں
بلوچستان ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد صوبہ بننے کے ساتھ ہی بحرانوں کا شکار رہا ہے۔ صوبے کے پہلے منتخب وزیر اعلیٰ جناب سردار عطاء اللہ خان مینگل صاحب گزشتہ دنوں وفات پاچکے ہیں وڈھ خضدار میں ان کے فاتحہ خوانی اور تعزیت کے موقع پر ہم نے جناب سردار اختر جان مینگل صاحب سے درخواست کی کہ وہ اپنے والد محترم اور اپنے نیم ماندہ دو حکومتوں کے دورانیے کا حاطہ کرتے ہوئے جامعہ رپورٹ مرتب کروائیں تاکہ مفید اور تعمیری ماحول کی تشکیل و تعبیر نو کے لئے نئے عمرانی و سماجی شعور کی بیداری و احیاء کے لئے نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اختیار کرنے اور نئے زمانے کے بدلتے ہوئے رحجانات و ترجیحات کے مطابق پالیسیاں تشکیل و تکمیل کے لئے اھداف و مقاصد طئے کئے جاسکیں تو جناب سردار اختر جان مینگل صاحب نے تیسری حکومت کے دورانیے کے طور پر جناب نواب اکبر خان بگٹی صاحب کے حکومت کو بھی شامل فرمایا، اب دیکھتے ہیں کہ وہ اس مہم کو کیسے اور کب سر کرتے ہیں حالیہ واقعات کی تہہ تک پہنچنے کے لئے پورے منظر نامے اور حقائق کا بے لاگ تجزیہ ضروری ہے