افغانستان کی نئی حکومت پاکستان کیلیے خدشات اور امکانات کا ایک سمندر ہے۔ سَب سے پہلی بات پاکستانی اِداروں کو یہ سمجھنی ہوگی کہ جِس قوم نے برطانیہ، رُوس اور امریکہ و نیٹو کی غُلامی قبُول نہیں کی، وہ پاکستان کی غُلامی بھی قبُول نہیں کرے گی۔ انگریز کی بنائی ہُوئی ڈیورنڈ لائن کو قبُول کرنا دونوں ممالک کی مجبُوری بَن چُکی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک اِس لکیر کو اپنے اپنے مفاد میں مدھم کردینے کی خواہش کرتے رہے ہیں۔ افغانستان پختُون عِلاقوں پر ہمیشہ سے دعویدار رہا ہے اور پاکستان سٹریٹیجک ڈیپتھ کا خواہش مند ہے رہا ہے۔ افغانستان اور پاکستان کو ایک دُوسرے سے جُدا کرنا ممکن ہی نہیں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اِن دونوں ممالک کا مِلاپ ایک ایسی طاقت کو جنم دے سکتا ہے جِس سے دُنیا پر قابض طاقتیں خوف کھاتی ہیں۔
دُنیا کو نئی افغان حکومت سے کیا خدشات ہیں، اُن پر نظر دوڑائیں تو چین کو سنکیانگ کے حوالے سے خدشات ہیں جِنھیں غالباً پاکستان کے تعاون سے کافی حَد تَک دُور کیا گیا ہے۔ رُوس اَب تَک خود کو سوویت یُونین سمجھتا ہے اور وَسطِ ایشیا میں اِسلامی بیداری سے خوفزدہ رہتا ہے۔ ایران نے پنجشیر پر حَملے کی شدید مذمّت سے اپنے تحفظّات سے آگاہ کردیا ہے۔ امریکہ اور مغرب اپنی شکست کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھتے ہیں۔ بھارت تو پاکستان کو ہمیشہ سے مِٹادینے کے دَر پے رہا ہے۔
اِس صُورتحال میں افغانستان پاکستان کیلیے ایک ایسی جَگہ ہے جہاں ہر قدم پر بارُودی سرنگ ہے اور تقریباً ہر کوئی پاکستان کو گھائل دیکھنے کی خواہش لیے ہُوئے انتظار کررہا ہے کہ کَب ہمارے چیتھڑے اُڑجائیں۔ ایسے میں ہماری قیادت کا امتحان ہے کہ وہ عالمی سیاست اور سفارتکاری کے میدان میں پاکستان کو اُن امکانات کی جانب لے جاتی ہے جو افغانستان میں حالیہ تبدیلی سے پیدا ہُوئے ہیں یا خُدانخواستہ ہم کِسی گہری دلدل میں پھنسنے جارہے ہیں۔ افغانستان پر قبضہ کرنا آسان لیکن برقرار رکھنا اور اِس پر حکُومت کرنا انتہائی مُشکل ہے۔ افغانستان میں ہمارے بزرگوں اور بھائیوں کی بےشُمار قُربانیاں موجُود ہیں لیکن امریکہ نے گزشتہ بیس برس میں نئی افغان نسل کو پاکستان کا دُشمن بنانے میں کوئی کَسر نہیں چھوڑی۔ افغانستان کے ساتھ ہمارا تعلُق اُس طرح ہونا چاہیے جیسے تُرکی کا آذربائیجان کے ساتھ تعلّق ہے۔ تُرکی نے آذربائیجان کو نگورنوکاراباخ آزاد کروانے میں بھرپُور مدد فراہم کی لیکن آذربائیجان کو اپنا ماتحت بنانے کی ہرگِز کوشش نہیں کی بلکہ برابری کا سَلُوک رَکھا۔ اللّٰہ پاکستان اور افغانستان کی قیادتوں کو وہ وِژن عَطا کرے جِس سے اُمّت کو ایک ناقابلِ تسخیر طاقت مُیسّر آسَکے۔ اللّٰہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان احترام اور محبت کے رِشتے پیدا کرے اور دونوں بھائیوں کو لَڑوانے کی دُشمنوں کی خواہشات کو خاک میں مِلا دے، آمین۔ اس مقصد کے لیے یہ اصول ایک بار پھر پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ افغانستان اور پاکستان کو ایک دُوسرے سے جُدا کرنا ممکن ہی نہیں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اِن دونوں ممالک کا مِلاپ ایک ایسی طاقت کو جنم دے سکتا ہے جِس سے دُنیا پر قابض طاقتیں خوف کھاتی ہیں۔
یہ درد بھرا اور حقائق پر مبنی تجزیہ و تبصرہ انس فرحان قاضی کا ہے جو قاضی حسین احمد مرحوم کے صاحبزادے ہیں۔