پاکستان میں عمرانی شعور اور سماجی ضبط کے فروغ کے انتہائی معتبر اور معنی خیز موضوع پر 31 اگست 2021ء بروز منگل اسلامی نظریاتی کونسل کے زیر اہتمام مجلس فکر و دانش ( علمی و فکری مکالمہ) اور اقبالستان موومنٹ کے توجہ دہی و اشتراک سے فکری نشست و نیشنل ڈائلاگ کا اہتمام کیا گیا ہے جس کی صدارت اسپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر فرمائیں گے اور موضوع پر خصوصی گفتگو و درپیش سوالات کے جوابات فراہم کرنے کے لئے ممتاز دانشور و مفکر جناب احمد جاوید،21 ویں صدی کے معروف مصنف و دانش ور پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان،اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ آیاز،ممتاز سیاست دان و سابق پارلیمانی لیڈر لیاقت بلوچ،کونسل کے سیکرٹری و محقق ڈاکٹر حافظ اکرام الحق یسین اور ماہر سماجیات و عمرانیات و مجلس فکر و دانش کے سربراہ عبدالمتین اخونزادہ اپنے اپنے خیالات کا اظہار خیال فرمائیں گے اسلام آباد اور قرب و جوار کے دوستوں سے رجسٹریشن کے ساتھ شرکت کی درخواست کی گئی ہے،،
ممتاز محقق و دانش ور پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان نے,,,پاکستان میں معاہدہ عمرانی کا امکانی مستقبل اور تصور اقبالستان،،، کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ,,,دینا بدل رہی ہے ممالک کی پوزیشن تبدیل ہو رہی ہے بلاک نئی صف بندی میں مصروف ہیں مغرب کی رفتار ترقی میں کمی واقع ہوچکی ہے چین و جاپان مستحکم ہورہے ہیں لگتا ہے پورپ اپنے عروج سے لطف اندوز ہو چکا ہے ایشیا دوبارہ ترقی و عظمت کی راہ پر محسوس ہوتا ہے قیادت چین و جاپان کے پاس ہے یورپ میں صنعتی نظام کمزور ہو چکا ہے اور ایشیاء کی تیاری ایشیائی ممالک میں ہورہی ہے گویا سیاسی و معاشی توازن تبدیل ہو رہا ہے مگر مسلم ممالک تاحال نوآبادیاتی اثرات سے ہی نکل نہیں پائے اس لئے دنیا کی اس تبدیلی کے عمل میں مسلم ممالک کا کوئی بڑا کردار سامنے نہیں آرہا ہے کسی قدر نمایاں ممالک میں ترکی،ایران اور پاکستان ہیں، تینوں غیر عرب یا عجمی ممالک ہیں مسلمانوں کی بدقسمتی کہ حجاز مقدس کا نام مٹا کر ایک خاندان کے نام پر رکھ دیا گیا ایسے میں اس کی مرکزیت بھی فنا ہوچکی ہے ایران مسلم دنیا کا قدیم ترین تہذیب رکھنے والا ملک ہے مگر مذہبی تقسیم کی بناء پر باقی مسلم دنیا کے لئے زیادہ کشش کا باعث نہیں ہے ترکی اور پاکستان کا موازنہ کریں تو ترکی کی پوزیشن کئی حوالوں سے بہتر ہے خصوصاً وہ ایک بار قبل بھی امت کی اجتماعی قیادت کرچکاہے اس وقت مسلم ممالک میں واضح موقف رکھنے والا ملک ہے سیاسی و معاشی استحکام اس کی وجہ ہے لیکن اسے برقرار رکھنا اس کے لئے چیلنج ہے خصوصاً آئندہ چند سال فیصلہ کن ہیں اس دوران ترکی آگر اسی رفتار یعنی سیاسی و معاشی استحکام کو برقرار رکھ سکا تو قوی اُمید ہے کہ ترکی ایک بار پھر مسلم دینا کی قیادت کرسکے گا_
یہاں خصوصی حوالہ پاکستان کا ہے امت مسلمہ کی قیادت کا پاکستان ایک مضبوط امیدوار ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اس کی اپنی قیادت بہت کمزور ہے پاکستان میں معاہدہ عمرانی ( دستور یا عوامی عہد+ کی بار بار بے حرمتی نے قیادت کی نشوونما نہیں ہونے دی_ پاکستان اگر اس بیماری پر قابو پالے تو بہت ممکن ہے کہ پاکستان امت کی قیادت کرسکے
مسلم دینا کی قیادت کے امکانات پاکستان کے پاس سب سے زیادہ ہیں موجودہ پاکستان میں اور موجودہ سیاسی و معاشی ڈھانچے میں قیادت کے ابھرنے کے امکانات سب سے کم ہیں قیادت کے امکانات کو متوازن کرنے کا واحد حل موجود معاہدہ عمرانی ( دستور 1973ء ) پر نیک نیتی اور اس کی اصل روح کے مطابق مسلسل عمل پیرا ہونا ہے فوجی کٹ یا مستعار افراد کی تعیناتی,, مارشل لاء،، کے مختلف روپ ہیں یہ بات نہ ریاست،نہ قیادت،نہ فوج اور نہ معاہدہ عمرانی کے حق میں مفید ہے اور پاکستان میں ہم نے دیکھ بھی لیا ہے_
معاہدہ عمرانی کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف ریاست ہوتی ہے اور دوسری طرف عوام _ آج کی جدید جمہوری ریاستوں میں عوام ہی ریاست کی نمائندہ جماعت کے طور پر دونوں طرف ہوتے ہیں باہمی احترام و اعتماد ریاست کی جمہوری قدروں کی پہچان ہے معاہدے میں شریک عوام کے جذبات کی بے حرمتی ناقابل معافی جرم شمار ہوتا ہے پاکستان کی تاریخ اس معاملے میں محض تلخ یا خوفناک ہے بلکہ,,یس اور نو،، کی کہانی ہے عوام اور ریاست کی قیمت کے چرچے ہیں_ ایسی تلخ صورت حال کے پیش نظر,,امکانی مستقبل،، کی بات ہی مناسب لگتی ہے_
,,امکانی مستقبل،، کو,, یقینی مستقبل،،میں بدلنے کا واحد راستہ,, دستور ریاست،، کی روح کے مطابق عمل ہے 1973ء کا آئین ہی متفقہ,, معاہدہ عمرانی،،کی دستاویز ہے وقت اور تجربات کی رو سے بہتری آتی رہی ہے دستور کا مکمل اطلاق نہیں ہوا، جزوی یا بددلی سے اقدامات نے تمام ریاستی اداروں کو کمزور کردیا اور تمام ادارے اپنی کمزوری پر پردہ ڈالنے کے لئے دوسرے اداروں میں مداخلت کے مرتکب ہوتے ہیں اس ضمن میں تمام اداروں کو باقاعدہ تربیت دینے کی ضرورت ہے کہ,, دستور،، محض قانونی شقوں کا نام نہیں ہوتا یہ عوامی معاہدہ ہوتا ہے ریاست کا عوام سے حلف ہوتا ہے یہ حقوق العباد کا قانون ہوتا ہے اور حقوق العباد کی ضمانت ہوتا ہے الہامی دستاویزات حقوق اللہ کی نشاندھی کے ساتھ حقوق العباد کی نشاندھی کرتی ہے ان کی عملی صورت کو معاہدہ عمرانی یا دستور سازی کے تحت ریاستی
قانونی ضمانت دی جاتی ہے دو فریقوں کا معاہدہ اور اس کا احترام ترقی کی ضمانت ہے_
ریاست کے طاقتور اداروں کے درمیان تعلقات کی نوعیت قانونی کم اور اخلاقی زیادہ ہے ان اداروں کو قانون کا پابند کرنے اور دوسروں سے قانونی روابط کے تحت میل جول ممکن بنانا ضروری ہے اس کے لئے تربیت کے نظام کار کو مزید بہتر بنانا ہوگا_
محض چند اداروں کی نشاندھی یہاں مقصود ہے::!!
01 _ حکومت
02_ پارلیمان
03 _ سول انتظامیہ
04 عسکری انتظامیہ
05_ پولیس انتظامیہ
06_ عدلیہ
07_ میڈیا
08_ چار اکائیاں ( صوبے)
09_ وفاق 10 _ اسلامی نظریاتی کونسل
11_ مشترکہ مفادات کونسل
12_ قومی اقتصادی کونسل و قومی مالیاتی کمیشن
13_ الیکشن کمیشن
14_ مذہبی طبقات
15_ اقبال پارلمینٹ، بطور نیا ادارہ شامل کیا جاسکتا ہے،،