افغانستان تاریخ کے پہلے نہیں دوسرے تیسرے پانچویں بلکہ شائد دسویں بار نازک لمحات سے گزر رہا ہے انگریزوں سے لے کر روسیوں تک سب کو مار بھگانے اور شکست دینے پر افغان اپنے آپ نازاں ہوتے ہیں امریکہ نیٹو و ایساف کے لگ بھگ 40 سے زائد ممالک کے افواج کے مقابلے میں اقوام متحدہ اور تمام عالمی اداروں کے تعاون و اشتراک کے باوجود افغان عوام،طالبان اور مزاحمت کاروں کے مقابلے میں دست بردار ہونا ظاہری و اصولی طور پر کھلم کھلا شکست ہی قرار دیا جاسکتا ہے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ افغانوں نے جرآت و بہادری سے 21 ویں صدی کے معروف و مغرور سپر پاور امریکہ نیٹو افواج کو شکست دے کر ہیٹ ٹرک مکمل کرلی ہے اور پے در پے تینوں بڑے سپر پاورز کے آگے نہیں جھکے لیکن افغانوں کے لئے اصل سوال و چیلنج بیرونی سے زیادہ اندرونی معاملات میں غیر لچکدار رویئے ہیں جو جدوجھد و جستجو اور آزادی و دانش مندی کا رجحان فروغ دینے کے بجائے پوری قوم کو بند گلی میں دھکیلنے کی مشق بار بار کراتے ہیں اور بند گلی بھی وہ جس کے نکڑ پر ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ آگ و بارود کی دینا آباد ہو آج 21 ویں صدی کے 21 ویں سال میں جب اقوام عالم اور پوری انسانیت کرونا وائرس کی ہولناکیوں اور معاشی و سماجی افراتفری سے بد حال و پریشان حال ہیں افغانوں کے گھر شانتی و دانش مندی اور خوشحالی و سکون کے بجائے آپس میں الجھے ہوئے مسائل پر لچکدار رویئے نہ ہونے کے باعث عوام الناس اور مرد و خواتین اور بچوں و بچیوں کے ساتھ ساتھ تہذیبی اور ثقافتی ورثہ و تاریخ و حال بھی بدترین منظر نامے کے انتظار میں کانپ رہےہیں افغان عوام کا جینا حرام کر دیا گیا ہے اور مسجد و بازار اور سکول و دانش گاہ سب کچھ آگ بگولا ہونے کی بدترین صورتحال درپیش ہیں سؤال یہ ہے کہ آخر قوم و ملت کیسے سکون کا سانس لیں اور ترقی و خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ممکن ہو سکے،،،
الف۔ جنگ کے شعلوں کے درمیان مشترکات و آبرو مندی کے رحجانات و ترجیحات تلاشِ کئے جائیں اور عملی حرکت و تغیر کے ذریعے قوم کو مشکلات و بربادی سے نکالا جائے۔
ب۔ وقت کی دوپہر میں چیلنج سمجھ کر موجودہ قیادتوں پر اعتماد و بھروسہ کرتے ہوئے امن و آشتی کا ارمان و منزل حاصل کرنے کی کوشش کی جائے حامد کرزئی گلبدین حکمت یار و دوسرے قائدین کی طالبان سمیت تمام فریقین سے حالات کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش میں بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
ج۔ سب سے اہم افغانوں کو اسٹیس کو برقرار رکھنے کا ہمیشہ نقصانات رہے ہیں اب وہ اپنے اپنے موقف سے اوپر اٹھ کر قوم و ملت کے لئے نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اور منصفانہ سماجی شعور کے لئے سوچیں تب ہی وہ ممکنہ طور پر حالات جہاں سے عبرت و نصیحت حاصل کرتے ہوئے اپنی سوسائٹی کی تعمیر و ترقی کے لئے نئے بنیادوں کو تلاش کرنے کی ضرورت کا ادراک و احساس کرسکیں گے اور یہی دراصل انسانیت کی رہبری و دانش مندی کی آرزو مندی کے لئے افغانوں کو آباد و شاد رکھنے کا کلیہ و فارمولا ثابت ہوسکتا ہے