تین دن زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ممتاز قوم پرست رہنما و سابق سینیٹر جناب عثمان خان کاکڑ صاحب کو ائیر ایمبولینس سروس کے ذریعے کراچی علاج و تشخیص کے لئے منتقل کر دیا گیا ہے رب العالمین آسانی فرمائیں حفاظت فرمائے شفاء کاملہ عطا ء فرمائیں ان کی حالت تشویشناک ہے اور اب ان کے حادثے کے بارے میں بھی تشویشناک اطلاعات و افواہیں گردش میں ہیں جناب عثمان خان کاکڑ انتہائی دلیرانہ قیادت و رہنمائی اور صاف ستھرے سخت موقف کے باعث عوام میں خاصے مقبول ہوئے ہیں جس کا اندازہ ان کی حادثے کی صورت میں عوام وخواص اور تمام سیاسی جماعتوں و کارکنان کی ان سے اظہار ہمدردی اور محبت و عیادت کی والہانہ اظہار و صحت مندانہ دعائیں ہیں جناب عثمان خان کاکڑ صاحب سے اختلاف و اتفاق دونوں موجود ہیں مگر اس نازک موقع پر سب نے ہمدردی اور محبت کا اظہار عیادت و دعاؤں سمیت سوشل میڈیا اور خاندان و پارٹی سے رابطوں میں کیا گیا ہے جو ہمارے معاشرے کے زندگی اور یکجہتی کے اچھے علامات میں سے ہیں عثمان خان کاکڑ صاحب کے متعلق ان کی پارٹی کا بیانیہ ہے کہ وہ اپنے کوئٹہ میں واقع اپنے گھر میں حادثے کے نتیجے میں برین ہیمرج اور گرنے کے باعث سر پر شدید چھوٹوں سے نڈھال اور بے ہوش ہیں مگر اب رفتہ رفتہ سوشل میڈیا اور غصیلے و ناراض نوجوانوں کے ساتھ ان کے پارٹی کے دو سنئیر راہنماؤں سابق سینیٹر و مرکزی سیکرٹری اطلاعات جناب رضاء محمد رضاء اور سابق صوبائی وزیر و صوبائی سیکرٹری پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی جناب عبدالرحیم زیارت وال کےبیانات اور گفتگو سے تلخ حقائق اور منصوبہ بند حملے کی صورت ظاہر ہورہی ہیں مگر ابھی شاید یہ سارے اندازے اور غصے سے آگ بگولا ہو کر نفسیاتی کیفیات کا اظہار ہے مگر حقائق تلخ اور سنگین نوعیت کے ہوئے تو پشتون قوم پرست جماعتوں اور مجموعی سیاست کے بہت زیادہ نئے اور مشکل ترین مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں اس لئے یہ سوال بہت کھل کر شک و شبہ سے بالاتر ہو کر ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے کہ جناب عثمان خان کاکڑ صاحب کی حادثاتی المیہ فطری اور طبعی طور پر ہے یا ہمارے تیسری دنیا کے المناک کہانیوں کی طرح ایک اور خوفناک اور مشکل گھڑی ثابت ہورہی ہیں لیکن سردست جناب عثمان خان کاکڑ صاحب کے خاندان،ان کی پارٹی اور ان کے تمام بہی خواہوں اور ہر طرح کے دوستوں کے لئے نہایت اہم اور ضروری مرحلہ ان کی صحت اور شفایابی پر توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ مفید اور تعمیری ماحول میں انسانیت کی رہبری اور رہنمائی کے لئے فطری نشوونما سے درآمد ہونے والے لیڈرشپ کی ممکنہ طور پر جان بچانے میں سوسائٹی کامیاب ہوسکے ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے پیش قدمی اور فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جناب محمود خان اچکزئی صاحب سے رابطہ کرتے ہوئے انھیں کراچی میں علاج و معالجے کی سہولیات دینے کی پیشکش کی اگرچہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ صاحب خاموش اور لاتعلق سے رہے طرفہ تماشا یہ بھی ہے کہ جناب عثمان خان کاکڑ صاحب ایک پرائیویٹ ہسپتال سے دوسرے میں منتقل ہوئے مگر کوئٹہ کے مشہور زمانہ سول سنڈیمن ہسپتال نہیں گئے یعنی محکمہ صحت اور سرکاری اسپتالوں سمیت بیروکریسی اور وزیر اعلیٰ جو صحت کا قلمدان اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں بالکل لاتعلق رہے جو بری اور انتہائی قابل گرفت عمل ہیں اگرچہ صوبائی حکومت اور خود وزیر اعلیٰ بلوچستان بجٹ سازی کے گورکھ دھندے میں بری طرح پھنسے رہے اور یہ انتہائی غیر معقول اور بے لا جواز ماحول بھی کوئٹہ میں اپوزیشن ںے ہی پیدا کی ہے اور جناب عثمان خان کاکڑ صاحب کے اتنے دردناک واقعے کے باوجود اپوزیشن جماعتیں اپنے آپ کو نارمل اور انسانوں کی عزت و آبرو مندی کے ساتھ ساتھ صحت و تندرستی کو زیادہ ترجیح دینے کے قابل نہیں بناسکے میں اپنے دوست و ماہر سرجن ڈاکٹر لعل خان کاکڑ صاحب کے ہمراہ 18 جون بعد نماز جمعہ مبارکہ جناب عثمان خان کاکڑ صاحب کی عیادت اور مزاج پرسی کے لئے حاضر ہوا تھا یوں لمحوں میں خوبصورت اور جاندار سیاسی شخصیت کو اذیت ناک صورتحال میں دھکیلنے والی بھیانک خاموشی بہت کچھہ بیان کررہی تھی رب العالمین آسانی فرمائیں حفاظت فرمائے شفاء کاملہ عطا ء فرمائیں آمین ثم آمین یارب العالمین ہم سب کے وسوسے اور غلط فہمیاں اپنے قدرت کاملہ سے شفاء کاملہ عطا ء کرنے کے ذریعے بخوبی دور ہوسکتے ہیں دیکھیں قدرت کا معجزہ رونما ہو کر جناب عثمان خان کاکڑ صاحب جیسے گرجدار مقرر اور عالم باعمل کو نئی زندگی اپنے قدرت کاملہ سے عطاء فرماتے ہیں یا گئے گزرے کمزور معاشرے میں نئے اور درد ناک المیے دوبارہ توانائی و ترقی عطاء فرماتے ہیں ہم تو عاجزی و انکساری اور صحت مندانہ انداز میں جناب عثمان خان کاکڑ صاحب کے لئے نئی معجزاتی زندگی لوٹانے کی دست بستہ درخواست گزار ہوتے ہیں مالک ارض و سماء کے سامنے۔