آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم معاشروں میں عورت کو بطور انسان اور مقصدیت و شعور و دانش کے لحاظ سے ازسرنو ایڈریس کیا جائے کیونکہ جب تک عورت عزت و تکریم اور تہذیبی و فکری تمدنی ترقیوں میں شریک کار نہیں ہونگے اور نسلوں کی راہنمائی و دانش مندی میں خواتین کی عظمت و رفعت تسلیم نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل و تعمیر نو ممکن العمل نہیں ہوسکیں گا اس لئے ضروری ہے کہ ہم اس مکالمے و ڈائلاگ کو مثبت انداز میں بیان فرمائیں اور اس پر اظہار خیال و مکالمے میں شرعی قوانین اور سماجی و تمدنی ترقیوں کے پیش نظر اقوام متحدہ کے دیرپا ترقیاتی مقاصد اور اہداف و ارمانوں کے ساتھ شعور نبوت اور وحی الہٰی و حکمت قرآنی پر محیط بحث ومباحثہ کا آغاز کریں جیسے مصر کے ہی معروف مصنف و دانش ور شیخ محمد غزالی فرماتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کے سلسلے میں مسلمانوں کے اندر بے راہ روی پیدا ہوگئی ہے غلط روایات پھیل گئی ہیں اور ایسی احادیث عام ہوگئی ہیں جو یا تو بالکل موضوع اور گڑھی ہوئی ہے یا اسی کے قریب قریب ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عورتیں سخت ترین جہالت کے اندر ہیں وہ دین سے بھی ناوقف ہیں اور دنیا سے بھی ناآشنا،عورت کی تعلیم گناہ ہے اور اس کا مسجد جانا ممنوع،نہ ملی مسائل و مشکلات سے اسے دلچسپی ہے اور نہ حال و مستقبل کی تعمیر میں اس کا کوئی رول _ عورت کی تحقیر ایک عام تصور و روش ہے اور اس کی حق تلفی معاشرے کا رواج بن چکا ہے تعلیم و تربیت اور تخلیقات کے میدان میں امت مسلمہ کا شمار اب تیسری دنیا میں ہوتا ہے مصنف عبدالحلیم ابو شقہ کے روایات اور تشریحات کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام نے مرد و عورت کے درمیان تعلقات کا دائرہ کس قدر وسیع رکھا ہے اور عورت کے دوش پر کیسی کیسی مقدس اور عظیم ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں مصنف موصوف ہمارے سامنے اسلام کے یہ نقوش پیش کرتے ہیں اور فتحیاب مغرب کی تقلید سے بھی ہمیں دور رکھتے ہیں جدید تہذیب کی گمراہیوں سے بھی ہمیں باز رکھتے ہیں جس تہذیب کے ہم بڑی حد تک اسیر ہو چکے ہیں اور اس گلو خلاصی کے لئے کوشاں ہیں اس لئے نہیں کہ پھر ہم اسی کوتاہ روی کو اپنالیں جس کی وجہ سے ہم شکست سے دوچار ہوئے ہیں بلکہ اس لئے کہ ہم اپنے اسلاف کی تابناک راہ پر گامزن ہو جائیں،عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ اور دور خلافت راشدہ کی راہ پر اسی راہ میں عزت ہے اور بقیہ سب خام خیالیاں اور شہوت رانیاں ہیں۔