بلوچستان ملک کے سب سے بڑے جغرافیائی اہمیّت کے حامل صوبہ ہونے کے باوجود ہر دور کی طرح جناب عمران خان صاحب کے دور حکمرانی میں نظر انداز ہے ماضی قریب و حال میں جناب نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو شھید کے ساتھ جناب پرویز مشرف صاحب نے بھی شاہراہوں اور تجارت و کاروبار کے فروغ دینے کے بے شمار دعوے کئے ہیں مگر حالات اور سماجی افراتفری دن بدن بڑھتی ہے کم ہونے کے بجائے،ماہ رمضان کریم 2021ء کے آغاز میں آبادی کے حامل بڑے صوبے پنجاب میں عمران خان صاحب کی نادانی اور غلط حکمت عملی کے باعث حالات بہت رنجیدہ رہے مگر ہفتہ عشرہ سے زیادہ نقصان و محرومی نہیں رہی اور بالآخر حکومت و ریاست دونوں نے باامر مجبوری یا بے وقوفی کے بعد دانائی کے تقاضے کے طور پر مذاکرات کئے اور سعد رضوی صاحب و دیگر افراد کو رہا کردیا گیا مگر بلوچستان اتنا خوش قسمت کہاں ہو سکتا ہے کہ صرف ایک ہفتے میں سلگتے و الجھتے مسائل حل ہو سکیں چمن باڈر اور مکران و چاغی کے طویل سرحدات پر تجارت اور صنعت و دانش مندی کی اپروچ و ترقی کے بجائے ٹینشن اور جسمانی و ذہنی بندشیں اور ریمانڈ کے ساتھ گولیوں اور پریشانیوں کے انبار لئے مسلسل حالات خراب کئے جارہے ہیں ہم نہیں سمجھ رہے ہیں کہ حالات کی درستگی کی ذمہ داری کس کی ہے وفاقی حکومت بلوچستان کے مخلوط حکومت سے ملکر بارڈر ٹریڈ اور ایران و افغانستان کے ساتھ بندشیں کم اور ختم کر کے عوام الناس کے لئے آسانیاں پیدا کرنے میں مصروف ہیں ابھی رواں ہفتے میں مکران تربت کے ایرانی ساحل و باڈر پر وفاقی وزیر محترمہ زبیدہ جلال الدین صاحبہ نے صوبائی وزیر خزانہ جناب میر ظہور احمد بلیدی صاحب کے ساتھ ملکر ریمدان گبد اور پشین کے علاقے میں ایرانی سفارت کاروں اور پاکستان کے فوجی حکام کے ساتھ نئے ٹریڈ پوائنٹ کا افتتاح کیا جو یقنی طور پر خوش آئند ہے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ رمضان المبارک سے قبل پورے دس پندرہ دن ملازمین اور وزیر اعلیٰ بلوچستان میر جام کمال خان عالیانی صاحب کے نورا کشتی اور ہٹ دھرمی کی لپیٹ میں رہا اور رمضان المبارک کی عبادات و ریاضت اور مجاہدے و فکری آبیاری کے باوجود سرینا ہوٹل کے اندر دھماکے اور خوبصورت و مثالی نوجوانوں کے المناک و ظالمانہ طریقے سے ملامیٹ کرنے والے نوجوانوں کے خون ناحق نے کشیدہ بنا دیا ہے۔ خون ناحق کی بھلا ہمارے معاشرے اور سیاست و ریاست کے بدبختانہ ظالمانہ نظام زندگی و سیاست اور عملی و ارتقائی مراحل میں سنجیدگی و متانت کے بجائے ظلم در ظلم سے عبارت ہیں سوال یہ ہے کہ وحشت و ویرانگی اور درندگی و انسانیت کے توہین آمیز ضابطوں کی آڑ میں کب تک معصوم و نوخیز اور لاتعلق و خوبصورت انسانوں کے تہہ تیغ کرنا کب روک پائیں گے۔