عبد الصبور کاکڑ ایڈیشنل چیف سیکریٹری ترقیات حکومت بلوچستان کے تبادلے کا نوٹیفیکیشن دیکھ کر اکثریت کی ذہن میں خیال آیا کہ ان کو تو حال ہی میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری ترقیات تعینات کیا گیا تھا۔ حقائق دیکھنے کے بعد پتہ چلا کہ عبد الصبور کاکڑ کو مورخہ 10 دسمبر 2020 کو ایڈیشنل چیف سیکرٹری ترقیات تعینات کیا گیا اور ان کی تعیناتی کے 3 مہینے کے اندر 19 مارچ 2021 کو عہدے سے ہٹا کر رپورٹ کردیا یعنی حکومت بلوچستان کو مزید ان کی کوئی خدمات درکار نہیں ہیں۔ جو ایک انتہائی ایماندار اور فرض شناس و متحرک آفیسر کے شایان شان نہیں ہے اس سے زیادہ محروم اور پسماندہ ذہنیت بلوچستان بیوروکریسی کے اندر خواتین سے غیر ذمہ دارانہ اور انتہائی بے ہودہ رویہ رکھا گیا ہے دالبندین چاغی میں بہادر اور شجاع خاتون آفیسر صاحبہ اسٹنٹ کمشنر مس عائشہ زہری کے ساتھ رواء رکھے جانے والی داستان ابھی ختم نہیں ہو پائی ہے کہ کوئٹہ میں دوسری بہادر اور قابل فخر بیٹی مس فریدہ ترین کو ڈیڑھ مہینے میں پانچ چھ دفعہ ٹرانسفر در ٹرانسفر کر کے ذہنی طور پر زچ کرنے کی ناکام کوششیں جاری ہیں ابھی 08 مارچ کے یوم خواتین منائی جانے کی آوازیں نہیں تھمے ہیں کہ مردانہ بیہودگی اور پسماندہ سوچ کی عکاسی شروع کر دی گئی ہے خواتین کی عظمت و رفعت اور ترقی و خوشحالی میں یقننا سازگار ماحول کا نہ ہونا اور مردانہ عینک اور قبائلی و ذہنی بندشیں بڑی روکاوٹیں ہیں،،
عبد الصبور کاکڑ کا تعلق ضلع پشین سے ہے اور انہوں نے 90 کی دہائی میں سرکاری ملازمت اختیار کی اور 1995 میں بلوچستان سول سروس میں بطور اسسٹنٹ کمشنر شمولیت اختیار کیا۔ عبد الصبور کاکڑ نے 5 سے زائد عرصہ تک تعلیم جیسے مقدس پیشے میں خدمات سر انجام دیں ہیں اور معاشرے کے دکھ درد رکھنے والے ایک حساس انسان ہیں۔
عبد الصبور کاکڑ تعلیم، ماحولیات، صحت اور دیگر محکموں میں بطور سیکرٹری سربراہ رہے ہیں۔ ان کی سربراہی میں ان محکموں میں زبردست اصلاحات متعارف کی گئی اور کافی بہتری لائی گئی۔ تاہم ان کے تبادلے اکثر سیاسی بنادوں پر کئے گئے اور ان محکموں سے سیاسی سربراہان کے شکایات پر ہٹائے گئے۔
سیاسی سربراہان کی اکثر شکایات یہ ہوتی تھی کہ ان کے ترقیات اسکیمات، بھرتی اور تبادلوں کے کام پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ تاہم سرکاری حکام کے مطابق حکومت کام رولز آف بزنس اور قانون و قائدے کے مطابق ہوتا ہے اور سیاسی سربراہان کے تمام احکامات اکثر غیر منطقی اور خلاف قانون ہوتے ہیں اور ان کی مطلوبہ درکار دستاویزات مکمل نہیں ہوتی۔ اگر کیس قانونی نقاط کے مطابق تیار کیا گیا ہو تو کوئی بھی سیکرٹری انکار کرنے کا مجاز نہیں۔
عبد الصبور کاکڑ کے کیس میں ذرائع کے مطابق انہوں نے 50 کے قریب سیاسی سربراہان کی اسکیمات روک لیں جس سے مافیا کے اربوں روپے داؤ پر لگ گئے اور جون قریب آنے پر سب کی چیخیں آسمان پر پہنچ گئیں جس کی بنیاد پر تمام سیاسی سربراہوں نے اتحاد بنا کر عبد الصبور کاکڑ کو عہدے سے ہٹا کر ایس۔اینڈ۔جی۔اے۔ڈی میں رپورٹ کردیا۔
نظریے اور شعور سے عاری کمزور سیاسی بنیادوں پر بنائی گئی پارٹیاں اور زندگی میں پہلی اور آخری دفعہ وزیر بننے والوں کی ترجیح زیادہ سے زیادہ صوبے کے مالی وسائل لوٹنے کی ہوتی ہے۔ جبکہ اسکی نسبت ایک اچھے نظریے کی حامل سیاسی سربراہاں کی ترجیح اگلے الیکشن کی تیاری ہوتی ہے اور اسی وجہ سے زیادہ سے زیادہ عوامی خدمت کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ بیوروکریسی میں بھی کرپٹ آفیسران کی کمی نہیں تاہم سیاسی سربراہان کی ترجیح کم سے کم وقت میں زیادہ مالی استحکام ہوتا ہے۔ تعبد الصبور کاکڑ ان سب سے مختلف ایک اعلیٰ قد کے مستحکم اور اعلیٰ امیج کے آفیسر ہیں۔ وہ ایک نڈر اور بے خوف بیوروکریٹ ہیں جنہوں نے ہمیشہ غلط کاموں کا انکار کیا ہے۔ ایسے تبادلے نہ ملازمت کا حصہ ہیں اور نہ ہی معمول کا حصہ ہیں بلکہ یہ ایک غیر معمولی، خلاف قانون و ضابطہ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی توہین ہے۔
جام کمال کے دو سال سے زائد دور حکومت میں ہزاروں کی تعداد میں آفیسران کے تبادلے بغیر کسی پالیسی اور قبل از وقت ہوئے ہیں اور انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ کسی بھی تبادلے کے نوٹیفیکیشن میں یہ نہیں لکھا گیا ہے کہ کس بنیاد پر ایک آفیسر کا تبادلہ کیا گیا ہے بلکہ نوٹیفیکیشن میں لکھا جاتا ہے کہ یہ تبادلہ وسیع تر عوامی مفادمیں کیا جارہاہے جوکہ سپریم کورٹ کے فیصلوں اور رولز آف بزنس کی سراسر تضحیک و توہین ہے۔ چیف سیکریٹریز نے ہمشہ ربڑ اسٹیمپ کا کردار ادا کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کے غلط فیصلوں کی توثیق کی ہے۔
ان حالات میں سول سوسائٹی اور بلوچستان بار کے وکلا پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آئین میں ضامن بنیادی حقوق کے آرٹیکل کے تحت ایسے تمام تبادلے بلوچستان ہائیکورٹ میں چیلنج کریں اور ضرورت پڑنے پر سپریم کورٹ سے بھی رجوع کریں تاکہ صوبائی حکومت کو یہ پیغام دیا جائے کہ حکومتی نظام آئین و قانون اور ضابطے کی بنیاد پر چلتا ہے نہ کی ذاتی مرضی اور پسند و ناپسند کی بنیاد پر۔اور ہم اپنے بہنوں و بیٹیوں کی عزت و آبرو کی حفاظت و تکریم جانتے ہیں اور اپنے قیمتی و صاف شفاف آفیسران کی عزت و حفاظت بھی کرسکتے ہیں