قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور شفاف استعمال،این ایف سی ایوارڈ ، معاشی ترقی و بجٹ 21/22 سمیت صوبے کے اہم مسائل پر جامع لائحہ عمل تشکیل دینے کے لئے مجلس فکر و دانش، اکنامک تھنکنگ فورم کے زیر اہتمام محکمہ خزانہ حکومت بلوچستان اور جی پی پی کے معاونت سے این ایف سی ایوارڈ اور ھیومین ڈویلپمنٹ انڈکس سمیت بلوچستان کے مجوزہ بجٹ 2021/اور 2022 پر مشاورت و پالیسی سازی کے لئے اہم ترین ڈائیلاگ و سیمنار کا انعقاد کیا گیا ہے جس کی صدارت سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کی جبکہ ڈائیلاگ و سیمنار میں صوبائی حکومت و اپوزیشن لیڈرشپ کے ساتھ معاشی ماہرین اور محققین،میڈیا ایکسپرٹ اور سیاسی و سماجی شخصیات و طلبہ وطالبات سمیت ممبر صوبائی اسمبلی و مرکزی راہنما بلوچستان نیشنل پارٹی ثناء اللہ بلوچ،جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق ہاشمی، ممتاز سماجی شخصیت و صدر اخوت فاؤنڈیشن پاکستان ڈاکٹر محمد امجد ثاقب،مجلس فکر و دانش کے سربراہ عبدالمتین اخونزادہ،ایڈنیشنل سیکرٹری حکومت بلوچستان محمد فاروق کاکڑ،یونیورسٹی آف بلوچستان شعبہ اکنامکس کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد ندیم ملک،شھید بازمحمد کاکڑ فاؤنڈیشن رجسٹرڈ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر لعل خان کاکڑ،نوجوان راہنماؤں صابر صالح پانیزئی،فرید بگٹی،سید فضل الرحمان اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پالیسی میکرز کی ذہن سازی اور عوام الناس کی بجٹ سازی اور معاشی امور میں دلچسپی لینے اور معاشی پالیسیاں عوام دوست بنانے کے لئے مکالمے و ڈائلاگ اور آگاہی و فکری غذا فراہم کرنے کی ضرورت ہے اسی بنیادی ضرورت اور جوہری نوعیت کی تبدیلی کے لئے بھرپور توانائی و فکری سیمنار و ڈائلاگ کی تیاری و انتظام مسلسل جاری رہنا چاہیے ، مجلس فکر و دانش اور اکنامک تھیکنگ فورم مسلسل رابطے و راہنمائی میں مصروف عمل ہیں،اس اہم ترین مقدمے میں صوبے کے مختلف علاقوں و حصوں کے مسائل سمیت وسائل کی حصول اور منصفانہ تقسیم اور بھتر طرز حکمرانی میں وسائل کی شفاف استعمال بنیادی تصورات اور ذہنیت کی تبدیلی پر مسلسل ورکنگ اور غور وفکر کے ساتھ بھرپور آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے،غربت ،خوراک کی کمی، ھیومین ڈویلپمنٹ انڈکس میں بلوچستان سب سے کمزور ترین صوبہ ہے،،باڈر ٹریڈ اور سرحدی و ساحلی پٹی پر موجود امکانات و روشن مستقبل سے جمہوری پارٹیوں اور حکمرانوں کی غفلت ایران وافغانستان کے طویل سرحدات پر تجارت اور صنعت و حرفت کے مواقع دستیاب ہیں
جنھیں لیگل سٹیٹس دینے کی ضرورت ہے،،این ایف سی ایوارڈمیں کم وسائل دینے کے باعث ھیومین ڈویلپمنٹ انڈکس میں سب سے کمزور کارکردگی رکھنے والا صوبہ ہے،مالداری وماہی گیری اور زراعت وجنگلات کے میدانوں میں انسانوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی اور ٹیکنالوجی بیس زراعت و زمینداری متعارف کرانے کی ضرورت ہے.
صوبے کے عوام الناس بطور خاص نوجوانوں اور خواتین سمیت لاکھوں انسانوں کی ذہنی و تہذیبی ارتقاء کے ساتھ مادی افادیت میں بڑھوتری کے لئے ذہانت و معاشرتی ترقی انتہائی معتبر و معروف حیثیت رکھتے ہیں. گوادر پورٹ اور ساحلی پٹی سمیت وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی و سفارت کاری کے ساتھ پاکستان،ترکی و ایران کے درمیان مشترکات اور
تجارت و کاروبار کے ذریعے ترقی و خوشحالی کے لئے پیش قدمی ہی بلوچستان کے ڈیرہ بگٹی سے لے کر لورالائی تک ترقیاتی اپروچ اختیار کرنے کی سبیل پیدا کر سکیں گا،،سی پیک و ٹیکنالوجی بیس ٹریڈ کے پیش نظر ضرورت ہے.
کہ صوبے کے نوجوانوں اور خواتین کے لئے اسکلز و ہنر مندی فراہم کرنے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام شروع کیجانے ضرورت ہے،، گوادر کے عوام کو ڈیرہ بگٹی و سوئی کی طرح نسل در نسل محروم نہ رکھا جائے۔
ریکوڈک کے سونے اور سیندک کے چاندی کے ذخائر کے باوجود چاغی کے عوام کو بھوک و افلاس اور غربت و سماجی افراتفری
ورثے میں ملا ہے۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے ڈویژنل ہیڈکوارٹرزلورالائی،سبی،ڈیرہ مراد جمالی،خاران،خضدار اور تربت مکران کے علاقوں کے لئے صوبائی و مرکزی حکومتوں کی جانب سے کوئی ماسٹر پلان نہیں ہیں اور نہ ہی میگاپراجیکٹس،،قبائلیسرداروں اور وڈیروں کے ساتھ سول و ملٹری اسٹبلشمنٹ نے اشرافیہ کے مقدس روابط کی طرح گھٹ جوڑ نے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی زندگی اور ٹیکنالوجی بیس معاشرے کی تشکیل و تعمیر نو میں بنیادی اور کلیدی روکاوٹ ہیں،،وطن عزیز کو نئے عمرانی معاہدے اور سماجی ترقی وخوشحالی کے لئے نئے و توانا پیراڈایم و دانش کی ضرورت ہے ،،جسے پوراکئے بغیر معاشرتی ترقی اور سائنسی و تعلیمی بیانیے کی تشکیل و تعبیر نو ممکن نہیں ہے نئے عمرانی و سماجی شعور کی ضرورت ہے جسے حکمت قرآنی اور شعور نبوت سے لیس ہونا چاہیے تاکہ صوبے کے عوام کی اکثریت کی حالت زار بدلنے کے لئے وسائل کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔