سیاست و ریاست کے فریم ورک میں بھرپور حصہ داری عوام الناس کی نصیبوں میں کب آئی گی پاکستانی سیاست میں یہ سوال شاید اب تک قبل از وقت ہوگا اس لئے کہ ابھی پارٹیاں جمہوری طرز حکمرانی اور سیاست کے میدان میں اچھی مثالیں پیش کرنے سے قاصر ہیں اس صورتحال کا اندازہ حالیہ سینٹ کے انتخابات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ابھی ذہنی و جمہوری بلوغت آنے میں کافی دیر ہے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب جمود و گھٹن کا شکار ہے جس کے باعث ملک میں استحکام و ترقی کے بجائے انتشارات اور سیاست و ریاست سے عوام کی اکثریت کی دلچسپی اور لگاؤ میں کمی آرہی ہے بلوچستان رقبے اور جغرافیائی اہمیّت کے باوجود تقسیم در تقسیم کا شکار رہا ہے بلوچستان اسمبلی چوں چوں کا مربہ ہے جس کے باعث کبھی بھی مضبوط اور مستحکم حکومت نہیں بن پائی ہے سب سے زیادہ پارٹیاں رکھنے والے صوبے میں سینٹ جیسے محدود انتخاب کا مرحلہ نہایت مشکل گھڑی ثابت ہوتا ہے مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی نہ ہونے کے باعث بلوچستان میں ان کی تنظیموں کو مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے تحریک انصاف کے نصفِ درجن سے زائد ممبران اسمبلی ہے جس کے باعث شدید تحفظات اور مشکلات کا سامنا ہوا اور سب سے زیادہ نقصان اور مشکلات بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نواب جام کمال خان صاحب کے حصے میں آئی بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل اور اے این پی کے صوبائی صدر جناب اصغر خان اچکزئی بھی مشکل کے شکار ہیں پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی اور جناب ڈاکٹر عبدالماک بلوچ صاحب کی نیشنل پارٹی دونوں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی طرح اسمبلی میں نمائندگی نہ رکھنے کی وجہ سے تقسیم در تقسیم اور اندرونی معاملات و مشکلات سے دوچار نہیں ہوئے ہیں جمعیت علمائے اسلام ف نے البتہ اس دفعہ یکسوئی کا مظاہرہ کیا ہے اگرچہ انھیں اندرونی طور پر ہی مولانا محمد خان شیرانی اور جناب حافظ حسین احمد کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے صوبے کے سیاسی کارکنوں اور تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ جناب محمود خان اچکزئی صاحب اور جناب ڈاکٹر عبدالماک بلوچ صاحب کو ایوانِ بالا میں لانے کے لئے پی ڈی ایم کی قیادت و پارٹیاں کردار ادا کرینگے مگر عملاً اس طرح کے خواب و خواہش رکھنا 21 ویں صدی کے 21 ویں سال ممکن العمل نہیں ہے سینٹ کے انتخابات 03 مارچ کو ہونے والے ہیں تب تک سیاسی پیشنگوئی اور پارٹیوں کی اصلاح و دانش کے بجائے اتھل پھتل جاری رہے گی۔