مظلوموں کے قائد جناب حافظ سلمان بٹ مالک ارض و سماء کے پاس حاضر ہوگئے وہ بیباک اور جری و بہادر لیڈر تھے لاہور و پنجاب میں ظلم و غنڈہ گردوں کے خلاف مضبوط ڈھال تھے حافظ قرآن تھے خوبصورت تلاوت کے ساتھ مضبوط دلائل کے ساتھ بامعنی گفتگو فرماتے تھے ہم 1990 ء میں لاہور میں پہلی دفعہ ان کے ذات و شخصیت سے آشنا ہوئے پھر بھرپور دوستی رہی وہ تین بار قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور فٹ بال کے شوق کے ساتھ مظلوموں کی حمایت و مدد کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے جماعت اسلامی کے مرکزی شوریٰ میں وہ اختلاف اور روایتی آداب کے حسن سے بخوبی آگاہ تھے وہ مظلوموں کے جی دار قائد قاضی حسین احمد مرحوم کے خوبصورت دور میں بھرپور طریقے سے فعال اور بے قرار تھے تب بھی وہ خود ساختہ اسٹیس کو پر چڑھ دوڑنے کے لئے آمادہ جنگ ہوتے تھے تب ہی انھوں نے زندگی رسالے کو اپنے زندگی کے تلخ و تفصیلی انٹرویو میں کہا کہ اگر میں سرگرم ہوا تو وہ خون خرابہ ہوگا اس وقت وہ جماعت اسلامی لاہور کے امیر تھے اور ان کے زرخیز ذہن میں لاہور کے لئے بہت کچھ کر گزرنے کا وژن تھا پرویز مشرف صاحب کے بلدیاتی نظام میں جناب حافظ سلمان بٹ صاحب جماعت اسلامی، مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ امیدوار بطور ناظم لاہور بنے واقفان راہ بتاتے ہیں کہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ کراچی اور لاہور دونوں بڑے شہر کردار پسندوں کو نہیں دئیے جاسکتے ہیں اس لئے جناب نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کی طرح حافظ سلمان بٹ کو لاہور کے ناظم اعلیٰ نہیں بننے دیا گیا، تب اسٹیٹس کو چیلنج کرنے والے حافظ سلمان بٹ کے بجائے میاں عامر محمود صاحب کو لاہور کا ناظم مقرر کیا گیا ورنہ آج لاہور کی جمہوری،ترقیاتی اور فلاحی تصویر مختلف ہوتی حافظ سلمان بٹ بلوچستان کے جغرافیائی اہمیّت اور مستقبل بینی کی اہمیت و افادیت سے آگاہ تھے اس لئے مختلف اوقات میں جمہوری تحریکوں،فٹ بال کے مشاغل اور مزدوروں کی دادرسی کے لئے وہ کوئٹہ تشریف لاتے تو طویل مباحث ہوتے وہ طلبہ سیاست سے قومی اسمبلی تک رسائی حاصل کرنے اور طلباء وطالبات اور نوجوانوں کے ترجمان بنے اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ رہے اور جماعت اسلامی جیسے محدودیت کے حامل گروہ کے ساتھ رہنے پر قانع رہے ایسے مستقل مزاج و دانش و حکمت کے ہیرے اب پاکستانی سیاست میں ناپید ہونے جارہے ہیں رب العزت مغفرت کاملہ عطا فرمائے اور ہمیں بھی زندگی میں عزم و ہمت سے نوازے