بلوچستان ہمیشہ کی طرح 21 ویں صدی میں بھی آتش فشاں پہاڑ کی طرح مسلسل ابل رہا ہے. آزادی و خودمختاری اور راحت و سکون بنیادی تصورات اور سلوگن ہیں مگر یہ خوبصورت نعرے لگاتے ہوئے نوجوانوں کی پوری کھیپ جانوں سے گزر چکی ہے۔ نہ جانے کتنے اور نوجوانوں کو حفاظت زندگی درکار ہیں بلوچ قیام پاکستان سے پہلے ریاست قلات،مکران،لسبیلہ خاران اور برٹش بلوچستان کی حیثیت سے جی رہے تھے اور پشتون قبائل صوبے کے شمالی حصے میں افغانستان اور انگریزی راجدھانی میں شریک کار تھے 1947 ء میں ریاست قلات نے ایک بڑے اسلامی ریاست کے قیام کے پیش نظر شعوری طور پر اسلامی مملکت کے ساتھ الحاق کیا جس کے مباحث و فیصلوں کے نقول و نقوش آج بھی تاریخ میں محفوظ ہیں۔ البتہ پشتون قبائل صوبے میں اجنبی ٹھہرے اور اب تک اطمینان سے محروم ہیں۔
ماضی کے جھروکوں سے 21 ویں صدی کے اوائل تک رسائی کے ذرائع تبدیل ہو کر بغاوتوں اور شورشوں کی بنیاد رکھتے ہیں۔ 1948 ء سے پہلے بلوچ بغاوت سے لے کر 2006 ء میں نواب اکبر خان بگٹی کے المناک قتل تک غم وغصہ اور تشویش و فکری رحجانات بڑھے ہیں کم نہیں ہوئے ہیں۔ اس وقت بلوچوں کے ساتھ پشتون نوجوانوں میں بھی آگ لگی ہوئی ہے۔ لورالائی میں دن دہاڑے پروفیسر ارمان لونی کے سنگین قتل کو سنجیدہ حلقے نہیں بھول پائے تھے کہ بلوچوں کی لاشیں برآمد کرتے ہوئے زمانے کی گردش رک نہیں سکتی کریمہ بلوچ بی ایس او میں تھی نوجوانوں کے سخت گیر گروہ نے بی ایس او آزاد کی تشکیل خطرناک ایجنڈے کے لئے کیا ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ عام پڑھے لکھے افراد میں شامل تھے مگر حالات کے سرد و گرم نے انھیں بغاوت پر مجبور کیا۔
ریاست پاکستان کے مقتدر حلقوں کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ زندگی اور موت دونوں کے اپنے اپنے مضبوط روایتی اسلامی آداب و روایات ہیں۔ اگر کریمہ بلوچ کے قتل میں ہم ملوث نہیں ہیں تو اس کے لاش و جنازے کے رسومات میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش غیر سنجیدگی اور زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ نواب بگٹی کی لاش کی بے حرمتی آج تک یاد رکھی جاتی ہے ارمان لونی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ پیش نہ کرنے پر آج بھی سوالات ہیں تو کیوں نہ دوستی و دشمنی اور اختلاف و افتراق کے باوجود مشرقی و انسانی روایات اور اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے ریاستوں کے بڑے روئیے و آبرو مندانہ اقدام کو ممکن بنایا جائے ورنہ سرخ خون اور زبان و نسل کی آبیاری ہمیشہ بنے بنائے جیتے جاگتے معاشروں کو تلھپٹ کر راکھ ڈھیر بنا دیتے ہیں خدارا نوجوانوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی اور کرب و بلا کو سمجھنے میں غلطی نہ کریں ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی اور پاکستانی سیاست و سوسائٹی نت نئے عمرانی و سماجی مسائل کی آماجگاہ بنی رہی گی