آوازہ نیوز چینل میں محترم فاروق عادل صاحب کے ساتھ سابق طالب علم راہنماء کی گفتگو اور جناب پروفیسر سلیم منصور خالد صاحب کے تبصرے نے طلبہ سیاست کے دور کی یادیں تازہ کر دیں۔ اس طرح تجزیہ و تحقیقی انداز میں ہمارے معاشرے کے سب سے اہم اور بنیادی نوعیت کے بڑے طبقے یعنی طلباء وطالبات کے مسائل اور شخصیت کی ترقی و خوشحالی کے لئے مثبت بحث کا آغاز 21 ویں صدی کے 21 ویں سال میں ممکن العمل ہوسکے گا۔
طلباء وطالبات کی ایک بھرپور فوج در فوج ھمارے گھروں،گلیوں اور شہروں و دیہات میں موجود ہیں یہ پاکستانی فوج سے بھرپور اور بڑی موثر اور ثمربار قوت ہے اگر ھمارا اجتماعی معاشرتی رویہ اور پالیساں بنانے والے ارباب اختیار و اقتدار اس پر توجہ دیں، ظاہر ہے کہ یہ توجہ پاکستان کے جاگیرداروں اور کریپشن مافیا انھیں نہیں دینا چاہتے ہیں اور نہ ہی غیر جمہوری پارٹیوں اور فوجی جنتا پارٹی نے یہ بنیادی نوعیت کا کردار ادا کرنا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک مکالمے و ڈائیلاگ کا آغاز نظریاتی و فکری اختلاف اور روایتی و غیر سائنسی روایات سے اوپر اٹھ کر غیر جانبدار ادارے اور فورمز پر شروع کیا جاسکتا ہے۔ میری تجویز ہے کہ 09 فروری 1984ء کو یونین بین کرنے کے یوم سیاہ منانے کے بجائے طلبہ وطالبات کی بھرپور قوت اور ان کی لازوال صلاحیتوں کے چھپے ہوئے خزانے کو لمحہ موجود کی مجموعی ضروریات اور علمی و سائنسی اہمیت و افادیت کے پیش نظر متعارف کرایا جائے اور ایک نئی دینا بسانے اور نئی جہتیں تلاش کرنے کے لئے ماضی کی مثبت اثرات و نتائج ضرور ساتھ جلو میں رکھیں لیکن خدارا منفی اثرات اور تقسیم در تقسیم نظریات و انتشارات سے ہجرت کرکے نئے عمرانی و سماجی شعور کے ساتھ ترقیاتی اپروچ اختیار کرنے کی روش اپنانے کی ضرورت ہے۔