ایک کروڑ سے زائد بیرون ملک پاکستانیوں کی مختلف اقسام ہیں اور ووٹ کے حوالے ان کے ساتھ اسی طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
1۔ وہ پاکستانی جو کلی طور پر پاکستانی شہریت سے الگ ہوچکے ہیں اور پاکستان سے انکا کوئی لینا دینا نہیں ہے، وہ پاکستانی شہریت ترک کرکے متعلقہ ممالک کے درجہ اول کے شہری بن چکے ہیں۔ انکا پاکستان کے حالات و واقعات سے کوئی تعلق نہیں، بس وہ خود یا ان کے آبائو اجداد کا کبھی تعلق رہاہوں اور ان کے پاس پاکستانی ہونے کی کوئی قانونی دستاویز بھی نہیں ہے۔
2۔ وہ پاکستانی جو وہاں پیدا ہوئے اور ان کے پاس پاکستانی ہونی کی کوئی دستاویز نہیں، سوائے آبا سے سینہ بہ سینہ تعلق کے متعلق سننے کے اور یہ کبھی پاکستان آئے اور نہ کوشش کی۔
3۔ وہ پاکستانی جو وہاں پیدا ہوئے، مگر ان کے پاس پاکستانی ہونے کی کوئی نہ کوئی قانونی دستاویز ہے، مگر انہوں نے کبھی پاکستان کا رخ کیا اور نہ یہاں کے حالات سے کوئی سرو کار ہے۔
4۔ وہ پاکستانی جو دوسرے ممالک شہریت کے باوجود پاکستان سے اپنا تعلق جوڑا ہوا ہے اور پاکستان آتے بھی ہیں اور کچھ زرمبادلہ بھی رشتہ داروں یا دوستوں کی مدد کی صورت میں بھیجتے ہیں۔
5۔ وہ پاکستانی جو صرف روز گار کے لئے عارضی طور پر بیرون ممالک میں موجود ہیں۔
اولذکر 3 کو شاید ہی پاکستان کے اصل حالات کا چند فیصد کا درست ادراک ہو۔
رابعہ الذکر کو کچھ حد تک حالات کا ادراک ہے۔ وہ جڑے رہنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔
آخر الذکر کا تو محور و مرکز پاکستان ہی ہے اور اصل زر مبادلہ تو انہی کا آتا ہے۔
ایک باشعور پاکستانی کم سے کم اپنی قسمت کے فیصلے کا حق اولذکر 3 طبقات کو تو کبھی بھی نہیں دے سکتا ہے۔
آخر الذکر دونوں کو یہ حق ملنا ضروری ہے، مگر اپنے آبائی حلقے میں نہیں، بلکہ بیرون ممالک پاکستانیوں کے لیے نشستیں مختص کی جائیں اور ان نشستوں پر ووٹ کا حق صرف بیرون ممالک پاکستانیوں کو متعلقہ ممالک میں ہی ملے۔