سینیٹ کے انتخاب 2021ء کا عمل شروع ہونے کے بعد بلوچستان میں سینیٹ کی 12 نشستوں کے حصول کے لئے مختلف پارٹیوں کی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے اور تحریک انصاف کی جانب سے عبدالقادر کو امیدوار نامزد کئے جانے کے بعد پارٹی کی جانب سے شدید اعتراض سامنے آیا ہے، جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے لئے یہ مشکل ہے کہ وہ حکومتی اتحاد یا اپوزیشن اتحاد کے ساتھ مل کر الیکشن میں حصہ لے۔
بلوچستان میں حکومتی اتحاد اور اپوزیشن اتحاد کی موجودہ پوزیشن کو مدنظر رکھا جائے تو حکومتی اتحاد کے حصے میں 7 نشستیں آتی ہیں ، جن میں 4 جنرل اور ٹیکنوکریٹ، خواتین اور اقلیت کی ایک ایک نشست ، جبکہ اپوزیشن کے حصے میں 5 نشستیں آتی ہیں ،جن میں 3 جنرل اور ٹیکنوکریٹ اور اقلیت کی ایک ایک نشست ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کو مد نظر دیکھا جائے تو اس وقت بلوچستان عوامی پارٹی کے 24، جمعیت علماء اسلام پاکستان (متحدہ مجلس عمل )کے 10، بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل)کے 10، تحریک انصاف کے 7، عوامی نیشنل پارٹی کے 4، بلوچستان نیشنل پارٹی(عوامی) کے 3، ہزار ڈیمو کریٹک پارٹی کے 2،مسلم لیگ (ن)، پختونخواملی عوامی پارٹی ، جمہوری وطن پارٹی اور آزاد ایک ایک رکن ہے ، جبکہ ایک نشست پر 16 فروری کو ضمنی انتخاب ہوگا۔
سینیٹ انتخابات کے فارمولے کے مطابق ہر رکن کا ووٹ 100 پوائنٹ کا ہے اور اس طرح بلوچستان میں سینیٹ کے 6500 پوائنٹ (65ارکان) ہیں۔ ایک جنرل نشست پر کامیابی کے لئے زیادہ سے زیادہ 820 پوائنٹ(8.2 ارکان )،خواتین اور ٹیکنوکریٹ کے لئے 2170 پوائنٹ (21.7ارکان)اور اقلیتی نشست کے لئے 3260 پوائنٹ (32.6 ارکان )درکار ہیں ۔
بظاہر یہ لگتا ہے کہ جمعیت علماء اسلام پاکستان ،بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل)، پختونخواملی عوامی پارٹی اور آزاد 22 ارکان ایک بلاک بنائیں گے اور اگر پی بی 20 پشین کی نشست جمعیت علماءاسلام پاکستان پھر جیت جاتی ہے تو یہ تعداد 23 بنتی ہے ۔ اس تعداد میں 2 جنرل ، ایک ٹیکنوکریٹ اور ایک خاتون نشست تو یقینی ہے ، تاہم تیسری جنرل نشست کے لئے 160 پوائنٹ (1.6ارکان )کی ضرورت ہوگی ۔
بلوچستان عوامی پارٹی 24 نشستوں کے ساتھ 2 جنرل اور ٹیکنوکریٹ اور خواتین کی ایک ایک نشست بآسانی حاصل کرسکتی ہے ، تاہم تیسری جنرل نشست کے لئے 60 پوائنٹ (0.6 رکن )کی ضرورت ہوگی ۔ تحریک انصاف کو ایک جنرل نشست کے لئے 120 پوائنٹ (1.2 ارکان )کی حمایت درکار ہوگی اور تحریک انصاف کی مقامی کی قیادت کی جانب سے نامزد امیدوار عبدالقادر کے نام پر اعتراض کے بعد تحریک انصاف کے لئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں ۔
یہاں 4 نشستوں کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی ، 3 نشستوں کے ساتھ بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) اور 2 نشستوں کے ساتھ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی بھی حکومتی اتحاد کا حصہ ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹیکنوکریٹ اور خواتین نشستوں کے لئے ان جماعتوں کے ووٹ کی اپوزیشن اتحاد اور نہ ہی حکمراں جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کو ضرورت ہے، تاہم حکومتی اتحاد کا حصہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان عوامی پارٹی کو تحریک انصاف ، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کو ایک ایک سینیٹ کی نشست دینی پڑے گی ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بلوچستان کے بارے میں ظاہری اعدادوشمار کی بنیاد پر کوئی حتمی رائے قائم کرنا بہت مشکل ہے اور اصل صورتحال تو امیدواروں کے حتمی اعلان کے بعد ہی سامنے آئے گی ،تاہم موجودہ صورتحال میں عوامی نیشنل پارٹی کے لئے مشکل یہ ہے کہ وہ حکومتی اتحاد یا اپوزیشن اپوزیشن اتحاد کے ساتھ ملکر الیکشن میں حصہ لیتی ہے۔