کیپٹن صفدر گرفتار ہو چکے ہیں۔ مزار قائد پر ان سے جو کچھ سرزد ہوا، یہ اس کا نتیجہ ہے۔ مزار قائد احترام کی جگہ ہے۔ یہ تو خیر بابائے قوم کی آخری آرام گاہ کا معاملہ ہے، لوگ تو راہ سے گزرنے والی میت اور عام قبرستان کا بھی احترام کرتے ہیں اور ایسے ہی کرنا چاہئے۔ اس لیے کیپٹن صفدر کو احتیاط سے کام لینا چاہئے تھا۔
مزار قائد کے واقعے کا جائزہ لیتے ہوئے چند باتیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں۔ کیپٹن صفدر نے مزار قائد پر دو نعرے لگائے۔ اول مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے نام کا نعرہ اور دوسرے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ۔ مسلم لیگ ن اس وقت جس سیاسی بیانیے کے ساتھ میدان عمل میں آئی ہے، یہ دونوں نعرے اسے بنیاد فراہم کرتے ہیں اور قائد اعظم کی شخصیت سے اس موقف کو سہارا ملتا ہے کیونکہ یہ واقعہ محترمہ فاطمہ جناح کے ووٹ چرا کر ایوب خان کے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی یاد دلاتا ہے۔اس پس منظر میں کیپٹن صفدر یہ نعرے لگانے میں حق بجانب تھے لیکن یہ کام مزار کے مرکزی حصے سے باہر نکل کر بھی کیا جاسکتا تھا۔ کیپٹن صفدر کو اپنے طرز عمل پر ضرور معذرت کرنی چاہیے۔
کیپٹن صفدر سے جو غلطی ہوئی، کیا اس کے ردعمل میں گرفتاری اسی انداز میں ہونی چاہئے تھی یعنی ہوٹل کے ایک ایسے کمرے کا دروازہ توڑ کر کسی کو پکڑا جائے جس میں میاں بیوی موجود ہوں۔ مجھے خدشہ ہے کہ کہیں یہ مسئلہ چادر اور چار دیواری کے تحفظ کا معاملہ بن گیا تو پولیس اور اس گرفتاری کی پشت پر جو لوگ ہیں، انھیں لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت سندھ نے گرفتاری کے اس انداز سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا ہے۔
حالیہ تاریخ میں مزار قائد کے تقدس کی خلاف ورزی کے الزامات اور مقدمات کے اندراج کی روایت سید غوث علی شاہ کی وزارت اعلی کے زمانے میں پڑی، ان کا جو مخالف بھی مزار قائد پر مظاہرہ کرتا، اس پر یہی الزام لگتا۔ یوں گویا مزار قائد کا تقدس ایک سیاسی معاملہ بھی رہا ہے۔
ویسے جن لوگوں نے پولیس کو دباؤ میں لے کر یہ مقدمہ درج کرایا ہے، چند برس قبل جب ان لوگوں نے اسی مقام پر جلسہ کیاتو یہ مقدس مقام مکمل تاراجی کام منظر پیش کر رہا تھا۔ حد یہ کہ مزار کی آرائشی چیزیں بھی توڑ پھوڑ دی گئی تھیں۔ اگر کوئی چاہے تو مزار کے ریکارڈ سے اس کی تصدیق کر سکتا ہے۔
مزار قائد کے تقدس پر شور مچانے والوں کو وہ واقعہ بھی ضرور یاد کرنا چاہئے جب روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مواجہ شریف کے سامنے بعض لوگوں نے نواز شریف کی آمد پر طوفان بدتمیزی برپا کیا تھا۔ اس لیے ہماری گزارش یہ ہے کہ ان واقعات کو بڑھانے کے بجائے کہیں بریک لگائیں ورنہ معاملات حد سے بڑھ گئے تو کسی کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔
آخری بات یہ کہ مزار قائد کے تقدس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا لیکن معاملات شفاف نہ ہوں اور ان میں مقدسات کو بھی شامل کر لیا جائے تو خرابی کسی قدر اور بڑھ جاتی ہے۔