اس پرآشوب دور میں ہنسی توہنسی چہرے پر مسکراہٹ بھی مشکل ہی سے آپاتی ہے۔ ایسے میں محمدعثمان جامعی کے فکاہیہ کالمزقاری کوبے ساختہ مسکرانے پر مجبورکردیتے ہیں۔لیکن یہ کالم محض فکاہیہ نہیں بلکہ ان میں انسانی دکھوں کابیان بھی ہے۔ جوسوچ وفکرکے در وا کردیتے ہیں۔طنزومزاح سے لبریزان تحریروں میں طنزکی کاٹ کچھ زیادہ گہری ہوتی ہے۔جوخندہ زیرلب کے بعدآنکھوں کواشک آلود بھی کرسکتی ہے۔”چپ رہانہیں جاتا” عثمان جامعی کے فکاہیہ کالموں کاتازہ مجموعہ ہے۔ جس میں مختلف موضوعات پران کے ایک سواکتیس کالم شامل ہیں۔
محمدعثمان جامعی عمدہ ادیب، درددل رکھنے والے شاعر ہی نہیں ، ایک مستند صحافی بھی ہیں۔بطور صحافی بھی اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔اس شعبے میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے انھوں نے مختلف سیاسی اورسماجی موضوعات پر سنجیدہ مضامین اوررپورٹیں بھی سپردقلم کی ہیں،طنز و مزاح ان کا خاص میدان ہے۔ جامعی صاحب کی فکاہیہ تحریریں ،شاعری،کہانیاں، افسانچے اورمضامین بالخصوص ایکسپریس کے صفحات اورمختلف ویب سائٹس کی زینت بنتے رہے ہیں۔”چپ رہانہیں جاتا” سے قبل محمدعثمان جامعی کی تین کتب شائع ہوچکی ہیں۔پہلی کتاب ”کہے بغیر”فکاہیہ تحریروں پر ہی مبنی تھی۔اس کے بعدان کاشعری مجموعہ”میں بس اک دیوار” شائع ہوا۔ان کی تیسری کتاب ایک منفردناول ”سرسید،سینتالیس اورسیکٹرانچارج” کے عنوان سے شائع ہوا۔یہ کراچی کی گذشتہ چالیس سالہ تاریخ اوراردوبولنے والوں کی سیاست اور سوچ کوادبی اسلوب میں بیان کرتاہے۔آصف فرخی کے دوافسانوی مجموعوں’شہر بیتی” اور”شہرماجرا ” کے تمام افسانے کراچی کے حالات پر ہی ہیں۔ محمدامین الدین کاناول ”کراچی والے” کاموضوع بھی کراچی کے حالات ہی ہیں۔جبکہ ایم کیوایم کے عروج سے قبل نامور افسانہ نگار انتظارحسین نے اپنے دوناولز”بستی” اور”آگے سمندرہے” میں مہاجرین اوران کے مسائل پرلکھے تھے۔
لیکن محمدعثمان جامعی نے جس طرح ایم کیوایم کے قیام ،اس کی تنظیم،طریقہ واردات کوجس طرح کھل کربیان کیاہے ،اورکس طرح اس تنظیم نے کراچی کی ایک پوری نسل کوگمراہ کیا۔ وہ اس سے قبل کسی مصنف کوبیان کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ان سب عوامل کے ساتھ ناول کاپلاٹ ،زبان وبیان اوراسلوب بھی شاندار ہے۔ان تمام خوبیوں کے سبب عثمان جامعی کے ناول نے بے حد مقبولیت حاصل کی اوراس کے کئی ایڈیشن منظرعام پرآچکے ہیں اوراب ایک مرتبہ پھر یہ دستیاب نہیں ہے۔
محمدعثمان جامعی نے ”چپ رہانہیں جاتا” کاپیش لفظ ”یہ میرا احتجاج ہے” کے عنوان سے لکھاہے۔جس میں کس خوب صورتی سے کتاب کا موضوع اور وجہ تخلیق بیان کی ہے۔” میرنے کہاتھا ع کیاکہیں کچھ کہانہیں جاتا۔۔اب توچپ بھی رہا نہیں جاتا۔ میری فکاہیہ تحریریں اسی کیفیت کی دین ہیں،سواس مجموعے نے ”چپ رہانہیں جاتا” کاعنوان پایا۔جس ملک میں حق گوجان سے اورسچ کہنارائیگاں جاتاہو، جہاں دلیل دیناکارِ زیاں ہو،منطق گالیوں سے کچل دی جاتی ہو،زورآوروں کی دھاڑیں،چنگھاڑیں اوران کے بھاری بوٹوں کی دھمک کم زوروں کے لیے اٹھتی ہرآواز کوسموچانگل لیتی ہو، وہاں کہناوہ کارِ لاحاصل ہے جس کا حاصل فقط دیواروں سے سرپھوڑنا ٹھہرتاہے ،اور ضروری نہیں کہ یہ دیواریں اپنے گھر کی ہوں۔لیکن ہم جیسے لوگ عام آدمی کوخون آشام بلاؤں کے پنجو ں میں سسکتے،تڑپتے،سادگی کودھوکے کے گڑھوں میں گرتے اوراعتمادکوراہوں میں لٹتے دیکھ کرچپ بھی نہیں رہ سکتے کہ میرے نزدیک ظلم،منافقت اورریاکاری پرخاموش رہنے والاقلم کار وہ بدترین مخلوق ہے جسے خدا نے لفظ گری کی نعمت دی اور وہ اس صلاحیت کوفقط زرگری کاذریعہ بنائے رکھے۔مشکل اورفریضے کے بیچ کھڑا ایک قلم کاریہ تو کرہی سکتاہے کہ انسان کاماس کھاتی خون پیتی دیوقامت بلاؤں پرہنسے اور ان کی طاقت،دبدبے اور دعوؤںکومذاق بناکررکھ دے۔ان کامکر،جبر اورہول ناکی زوردار قہقہوں میں اڑادے۔میرے طنزومزاح لکھنے کابس یہی مقصد ہے ،بڑی سنجیدگی اورمتانت سے بولے جانے والے جھوٹ اورگھن گرج کے ساتھ جھاڑے جانے والے رعب کومذاق بناکررکھ دینا۔ میں بنیادی طور پر طنزنگارہوں، جودل فگار ہوکرلکھتاہے۔میری نگارشات میں مزاح توبس طنزکاٹ کم کرنے لیے ہے۔یہ طنزنویسی یامزاح نگاری ظلم ،استحصال،جھوٹ ،مکراور فریب کے خلاف میرااحتجاج ہے،اس احتجاج کی پہلی صدا”کہے بغیر” تھی،جومیری اولین کتاب بھی ہے، اوراب یہ گواہی درج کرارہا ہوں کہ کوئی ستم ہو،دروغ کی نئی رسم ہو، کوئی جھانساہو۔ میں چپ نہیں رہا،جوکہناتھاکہہ دیا۔”
یہ بھی پڑھئے:
مریم نواز کس میرٹ پر پورا اترتی ہیں؟
میا ں صاحب حکومت کیوں سنبھالیں گے؟
اس پیش لفظ میں عثمان جامعی نے اپنا پورافلسفہ حیات اوربطور مصنف تحریروں کا مقصد بیان کردیاہے۔ اس تحریرسے مصنف کے گدازدل اور حساس ہونے کابھی علم ہوتاہے اورانھوں نے جس دل فگارانداز میں ملک میں پیش آنے والے سانحات کابیان کیاہے، وہ قاری کوجھنجھوڑ کر رکھ دیتاہے۔کراچی یونین آف جرنلسٹ کی شائع کردہ پانچ سوچوراسی صفحات پرمبنی اس کتاب کی قیمت صرف چھ سوروپے ہے۔جوکتب کے موجودہ قیمتوں کی ایک تہائی ہے اوراس کامقصد کتاب کوزیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچانا ہے۔”چپ رہانہیں جاتا” ہرگھر میں ہونا لازمی ہے۔اس سے ملکی حالات کا بھی اندازہ کیاجاسکتاہے،کیونکہ واقعات اورسانحات کے طنزیہ انداز میں ذکر کے ساتھ گذشتہ دودہائی کی تاریخ بھی بیان کی گئی ہے۔
کتاب کی پہلی تحریر”دشمن کابچہ پڑھتاہے” ۔جس میں کس خوب صورتی سے قومی مفادات کی پالیسوںکے تضاد کوبیان کیاگیاہے،جس قاری کواس کے پس منظرکاعلم ہو،وہ تحریرکی کاٹ کوبخوبی سمجھ سکتاہے۔”اگرچہ ہمارے ملک کے اکثراساتذہ ہربچے کودشمن کابچہ سمجھ کرپڑھاتے ہیں،مگراب سے کچھ عرصہ پہلے دشمن کے بچوں کوپڑھاناقومی پالیسی قرار پایاہے،بہت اچھی پالیسی ہے،لیکن دشمن کے کچھ پڑھے لکھے بچے دشمنی کاسبق اس طرح یاد کرچکے ہیں کہ تعلیم ان کاکچھ نہیں بگاڑپاتی اوروہ ایک ہاتھ میں کتابیں اورتعلیمی سنداوردوسرے میں بم پکڑے جھوم جھوم کرگاتے ہیں”مجھے ابوکے مقصد کوبڑھاناہے۔”ہمارا خیال ہے کہ عین ممکن ہے اس پالیسی کوعلمی جامہ بلکہ عملی جیکٹ پہنانے کے لیے درس گاہوں میں دشمن کے بچوں کاکوٹہ مقررکردیاجائے، عین ممکن ہے کہ خصوصی انتظام کرتے ہوئے تعلیم بالغاں کی طرح تعلیم دشمناں کا کوئی علیحدہ سلسلہ شروع کیاجائے۔اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ اس پروگرام کوآگے بڑھاتے ہوئے،”مجھے دشمن کے ابوکوپڑھاناہے” مجھے دشمن کی امی کوپڑھاناہے، مجھے دشمن کی پھپھوکوپڑھاناہے،مجھے دشمن کی خالہ کوپڑھاناہے۔” کے نغمات یکے بعددیگرے لاکردشمن کے پورے خاندان کوتعلیم دینے کابیڑہ اٹھالیاجائے،اگلایہ نغمہ بھی ہوسکتاہے ،مجھے دشمن کے ٹبرکوپڑھاناہے۔”
اس پورے ولاگ میں محمدعثمان جامعی نے بہت لطیف پیرائے میں اس پالیسی اورسوچ کا پردہ چاک کیاہے۔ایک اوردلچسپ ولاگ”ہوتا جوسپرمین پاکستان میں” کااقتباس ملاحظہ کریں ۔”اس وقت ہم ٹسوے بہااورایک گانے کے یہ بول گارہے ہیں”جگ نے چھینامجھ سے مجھے جوبھی لگاپیارا” ۔بھی دل درد سے نہ بھرآئے گا کیوں۔۔یہ بھی کوئی بات ہوئی،جوبھی ہمیں پسندہووہ نہیں رہتا،نوازشریف وزیراعظم نہ رہے،مولانافضل الرحمٰن اسمبلی میں نہ رہے،ممنون حسین صدر نہ رہے،عمران خان غصے میں نہ رہے،شیخ رشید پروگراموں میں نہ رہے اور مصطفٰی کمال اورفاروق ستار کہیں کے نہ رہے۔اوراب خبرآئی ہے کہ ہمارا من پسندکردارسپرمین بھی نظروں سے اوجھل ہونے کوہے، کیوں کہ کامک سائنس فکشن فلمیں بنانے والی امریکی کمپنی وارنربرادرز نے آئندہ کئی سال تک ایسی کوئی فلم نہ بنانے کافیصلہ کیاہے جس میں سپرمین کاکردار ہو۔سپرمین کی جب بھی کوئی فلم دیکھی یہی سوچاکہ کاش ہم بھی اسی طرح اڑسکتے،خود سے مایوس ہوکرہم نے اس خواہش کا دامن تھام لیاکہ ہمارے ملک میں بھی کوئی سپرمین ہوتا۔آخر ایک دن دیواروں پر لکھادیکھا۔مہاجروں کاسپرمین الطاف حسین،تو خوشی سے جھوم اٹھے۔اضافی مسرت اس کی تھی کہ سپرمین نہ صرف ہمارے ملک بل کہ ہماری ہی لسانی برادری میں تولد فرماچکاہے۔جب پتاچلاکہ یہ صرف نعرہ ہے توبڑی مایوسی ہوئی،جب ان کی تقریریں سنیں توصاف لگاکہ وہ ہواؤں میں اڑرہے ہیں،یہ الگ بات ہے کہ ”فیول” کی مدد سے۔ سپرمین کے پاکستان میں ہونے کی آرزو تو خاک میں مل گئی، لیکن سوچتے ہیں کہ اگرواقعی وہ پاکستان میں ہوتاتواس کا کیاحال ہوتا۔اول تو ہمارے ہاں اس کانام ہی کچھ اور ہوتا جیسے”اڑنے والی سرکار”،”اڑن بابا” یا اقبال کا ماڈرن شاہین۔نام کچھ بھی ہولیکن بے چارے کے ساتھ ہوتابہت برا۔”
اس دلچسپ کالم میں سپرمین سے لیے جانے والے کاموں کی جومضحکہ خیزتفصیلات ہیں وہ پڑھنے والے کوبے ساختہ ہنسنے پرمجبورکردیتی ہیں اورپھران کے سیاسی اورسماجی مضمرات کا جواب نہیں۔”ادھرکسی کومصیبت سے بچانے کے لیے سپرمین زمین سے دس پندرہ فٹ بلندہوتاکہ راہ میں آنے والے گھروں میں بھگڈرمچ جاتی، بی بیاں دوپٹے سنبھالتی گرتی پڑتی صحن اورچھتیں چھوڑ کرکمروں کی راہ لیتیں۔ہمارے غیرت مند معاشرے کے مردکہاں برداشت کرتے کہ کوئی نامحرم کبوتربناگھروں میں تاکتاجھانکتااڑا جارہاہو،سوکوئی پتھردے مارتااورکوئی ہوائی فائرنگ شروع کردیتا۔ایسے میں سپرمین کوعزت اورجان بچانے کے لیے واپسی کی راہ لینی پڑتی اور وہ بدحواسی کے عالم میں اپنے گھرپہنچ کر چھپ جاتااورآئندہ کسی کی مددسے تائب ہوجاتا۔ہمارے حکم راں اورسیاست داں سپرمین کواپنے مقاصدکے لیے استعما ل کرتے۔کبھی حکم ملتا۔یہ لوبوتل، اورجھٹ پٹ فلاں اسپتال کے روم نمبراتنے میں پہنچادو۔وہاں داخل مریض کوبڑی زورکی طلب ہورہی ہے۔،یارذرا لاہورسے چارآزاد ارکان اسلام آباد پہنچاناہیں۔اب شروع ہوتی سپرمین کی شادی شدہ زندگی۔’سنیے،سالن دم پرہے،آلوڈالنابھول گئی، ذرا اڑ کرلے آئیے نا،’ سنیں،اٹھنے نا، خان پورکے پیڑے کھانے کودل چاہ رہاہے ،لادیں پلیز”
طنزومزاح کے مخمل میں لپٹے ہماری سیاسی اورسماجی رہن سہن کا ایسا انوکھا بیان اورکہاں پڑھنے کوملے گا۔سیاسی حقائق کے ساتھ کس لطیف پیرائے میں عثمان جامعی کی تحریرسے قاری تادیر لطف اندوز ہوتاہے۔ ” نظریاتی بحثوں میں سردھنتے اورماسکونوازی اورپیکنگ نوازی میں سے کسی کوچنتے کھرے سرخوں نے ہوش میں آکے نظراٹھائی توسرپرسوویت یونین توکیاٹریڈیونین کاسایہ بھی نہیں تھا، سرخ پرچم لال چنری بناہوامیں اڑچکاتھا،امریکامخالف نعرے مذہبی جماعتوں نے ہتھیالیے تھے،سورگ باشی سوویت یونین کی ہمارے ہاں موجود آخری نشانیوں میں سے کلاشنکوف بچی تھی یاپاکستان اسٹیل ملز،اسٹیل ملز مررہی تھی اورکلاشنکوف مار رہی تھی۔اس مایوس کن صورت حال میں کسی سرخے نے این جی اوکی نوکری پکڑی،توکسی نے ‘موت کامنظر’ اور’مرنے کے بعدکیاہوگا؟ جیسی کتابیںاورمسجدکی راہ لی۔ باقی بچنے والے وہ تھے جو رکھے رکھے دانشوربن چکے تھے،اب وہ کمیونسٹ لٹریچرسے فال نکال کرمختلف ممالک میں سرخ انقلاب آوے ہی آوے کی پیش گوئیاں کرتے اورخوشی سے جھوم اٹھتے ہیں۔ہائے وہ بھی کیادن تھے،لوگ سام راج،کام(ریڈ)راج اورشیخ الاسلام راج کی بحثوںمیں الجھے رہتے تھے اوران کی الجھنیں اورمعاملات سلجھانے یونیفارم راج آجاتاتھا۔سرخے اورسبزے اس حقیقت سے بے خبرہی رہے کہ اس دیس پر بس یونیفارم راج رہے ،اوراس سچ سے آشنانہ ہوسکتے کہ پاکستان سرخ ہے نہ سبز،یہ توخاکی ہے اورعلامہ اقبال فرما ہی چکے ہیں کہ یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۔”
بین السطورمیں مصنف کیاکچھ کہہ گیااس کاایک الگ ہی مزہ ہے۔انتخابات کی فضااورماحول میں عثمان جامعی کی تحریر”چارہ،غرارہ،نعرہ، ضروری ہیں” کالطف اٹھائیں۔ کیا برمحل اوردل پذیرلکھاہے۔”جس طرح شادی کے لیے شرارہ غرارہ لازم ہیں،بریانی کے لیے آلوبیحد ضروری ہے،گائے بکرے پالناہوتوچاراناگزیرہے،پتھارہ فٹ پاتھ کی پہچان ہے،نکاح کے لیے چھوارہ چاہیے اسی طرح سیاست جس کے بغیر نہیں چلتی وہ ہے نعرہ۔ہم نے سوچاکہ انتخابی فضا میں کیوں نہ سیاسی جماعتوںاورامیدواروں ایسے نعرے دیے جائیں جوکسی گانے کے بول اورسلوگن کی صورت میں عوام کی یادداشت میں محفوظ ہوں،ساتھ ہی سیاسی جماعت اورشخصیت کے حالات ،اوصاف اورنظریات کے آئینہ دار بھی ہوں۔مسلم لیگ ن کے لیے حالات کے مطابق یہ نعرہ کیسارہے گا؟”دھلیںگے،کچے ہوتے ہیں۔داغ تواچھے ہوتے ہیں ” بس یہ خدشہ ہے کہ جواباً ن لیگ کے مخالفین”ہرداغ کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے” کواپنانعرہ بناسکتے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی پہلی بار بلاول بھٹوکی قیادت میں الیکشن لڑے گی،اس کانعرہ ہوناچاہیے۔”یہی کام کریں گے اچھے،بچے من کے سچے”دوسرانعرہ”پولنگ بوتھ جاکے تیر پرٹھپہ لگانارے،چھوٹابچہ جان کے ہم کوبھول نہ جانارہے۔” رہے آصف زرداری ان کے لیے موزوں نعرہ ہوگا۔”جوہے سب کوپسند، میری مٹھی میں بند” ۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے لیے تجویزکردہ ہمارانعرہ ہے۔”میں جادوگرمرانام گوگا،جومیرے ساتھ آئے گاصاف ہوگا”
پی ٹی آئی یہ نعرہ بھی لگاسکتی ہے۔آجائے وہ پارٹی چھوڑ کر،کنے کنے جانااے بلودے گھر۔”
یہ تین بڑی پارٹیوں کے لیے نعرے ہیں۔ایسے مزیدنعروں کوجاننے کے لیے ”چپ رہانہ جائے”پڑھناہوگی۔جس میں ایسے بے شمار دلچسپ موضوعات کااحاطہ کیاگیاہے۔ عمران خان اورڈونلڈٹرمپ کی باہمی ملاقات کی بات چیت سے دونوں معلومات کاکیاخوب نقشہ کھینچا ہے۔ملاحظہ کریں۔” عمران خان،ارے وہ شہزادہ زایدبن سلطان النہیان اپنابھائی ہے،پچھلی ملاقات میں ہماری بڑی اچھی گفت گو رہی۔میں نے اسے خلیل جبران کی کتاب’مسدس حالی’ کے پورے پورے اقتباس پڑھ کرسنائے اور کہادیکھوتمھارے ملک کے دانش ور سے میں کتنی محبت کرتاہوں۔ٹرمپ، یہ توکسی کورجھانے کابڑا اچھا حربہ ہے۔میں بھی سعودی شہزادے سے ملاقات ہوئی تواسے سعودی شاعرغالب کے اشعارسنا پرمتاثرکروں گا۔ عمران، اورایرانی صدر کو متاثرکرنے کے لیے آپ انہیں ایرانی گلوکارمحموددرویش کے گانے سنائیے گا۔میں بھی یہی کیاتھا،مگرحیرت ہے وہ اپنے ہی ملک کے گلوکارکونہیں جانتے۔ٹرمپ۔ بہت اچھی تجویزہے۔چلیے اسی پر میں آپ کو آپ کے ملک کے شاعرمحمدعلی جناح کاایک شعرسناتاہوں۔عمران، اوآپ غلط کہہ رہے ہیں۔محمدعلی جناح شاعرنہیں۔انھوں نے پاکستان بنایاتھا۔ٹرمپ، ارے معافی چاہتاہوں،اچھا تووہ بلڈر تھے۔میں توسمجھتاتھاپاکستان آپ کے ملک صاحب نے بنایاہے،جوبڑے بڑے پروجیکٹ بناتے ہیں۔عمران، اونہیں نہیں، پاکستان محمدعلی جناح نے بنایاتھا،ویسے ہی جیسے امریکاجارج کلونے نے بنایا۔ٹرمپ،امریکا بنایا ! آپ غالباجارج واشنگٹن کاذکرکررہے ہیں۔عمران، جی وہی وہی،انھیں اپنے شہر واشنگٹن سے کتنی محبت تھی،اس کے نام کواپنے کاحصہ بنا لیا ، کیاکہنے۔”
اس دلچسپ گفت گوکا ہرجملہ لطیف طنزومزاح کا شہ پارہ ہے اورقاری کوباربار مسکرانے پرمجبورکردیتاہے اورمزاح سے بھرپور”کھانانہ پکانے کی ترکیبیں” کہیں کہیں مسکراہٹ کوبے ساختہ قہقہے میں بدل سکتی ہیں۔”بریانی، یہ ہمارا قومی پکوان ہے۔بارات ہو،یاولیمہ،سوئم ہویا چالیس واں ہرجگہ توآپ بریانی کھاتی ہیں،کھاکھاکردل نہیں بھرا؟ ہمارے ہاں ہرتقریب بہرملاقات نہیں برائے بریانی ہوتی ہے،سوتقریبا ت میں جاتی رہیے اوربریانی کھاتی رہیے،خود پکانے کاجھمیلا پالنے کی کیا ضرورت ہے۔پائے، پائے بڑی صبرآزما ڈش ہے۔خوش ذائقہ پانے بنانے کے لیے بنانے والے کوصبرکرنا پڑتاہے اوربدذائقہ ہوں توکھانے والے کو۔یہ بڑا محنت طلب پکوان بھی ہے۔اگرخیرسے آپ ساس ہیں توبہوسے پائے بنوائیے۔آخر آپ نے گائے سے زیادہ بہولانے پرخرچ کیاہے،توکس دن کے لیے اتناپیسہ خرچ کیاتھا؟ پھر ترکیب سمجھنے کا ٹینشن آپ کیوں لیں،موئی کسی سے پوچھ کرخود بنالے گی۔مغزفرائی، گیس ضائع نہ کریں ،نہ ہی زیادہ مغزماری کی ضرورت ہے،بس پتیلی میں مغزڈال کربیٹھ جائیں اورمغزکوشوہرسمجھ کرکھری کھری سنانی شروع کردیں،کچھ ہی دیرمیں فرائی ہوجائے گا۔پندرہ منٹ سے زیادہ شوہر مت سمجھیے گا ورنہ جل جائے گا یاگھومتا ہوااچھل کرپتیلی سے نکل کرباہرچلاجائے گا۔”
اس کے ساتھ ایسی ہی دلچسپ نرگسی کوفتے،حلیم،شامی کباب،کڑھائی گوشت،بالٹی گوشت، پلاؤ،قیمہ، کھچڑی گوشت، گھلی ملی بوٹی، بھنادل اور جلاگوشت کی ترکیبیں ہیں۔اس پرسونے پہ سہاگااختتامی جملہ”اب باہرسے اپنے پسندکی کوئی بھی ڈش منگوائیں اورمزے لے لے کر کھائیں۔کھاتے ہوئے کھانے سے زیادہ مزہ یہ سوچ کرآئے گاکہ آپ نے گوشت سے زیادہ ساس کوجلادیاہے۔”
”مہنگائی کے دنوں میں محبت” کاایساہی پرلطف اقتباس پڑھتے ہوئے قاری کے دانت نہ نکل پڑیں توکہنا۔”گیبریل گارشیامارکیز کے ناول ”وباکے دنوں میں محبت” ناول کے عنوان کاصحیح ترجمہ توتھا،’ہیضے کے دنوں میں محبت’ لیکن شایدمترجم کوخطرہ تھاکہ ذراسی غلطی عنوان کوبہت زیادہ بامعنی بناکرترجمے پرپابندی نہ لگوادے،اس لیے ہیضے کی جگہ وباکالفظ استعمال کیاگیا۔جوسنگ دل محبوب کو اپنے قدموں میں لانے کے لیے کالے علم کے ماہر پروفیسرکے دیواری اشتہارات پڑھ کرتعویزلینے پہنچ جایاکرتے تھے، وہ اب اسی پروفیسرکے قدموں میں پڑے فریاد کرتے ہیں کہ بابا وہ قدموں میں پڑی ہے،اورمیں بے کارپڑا ہوں،اب اسے قدموں سے اٹھابھی دو،تاکہ روٹی توکسی طورکماکھائے مچھندر۔جنھیں پہلی نظر میں محبت ہوگئی تھی، وہ اپنی محبوبہ کوآخری بار پیٹرول کی قیمت بڑھنے سے پہلے نظرآئے تھے۔اب اپنی موٹرسائیکل کے میٹر پرنظرجمائے وہ اپنی پہلی نظروالی آخری محبت کے محلے سے دور دور ہی گزرجاتے ہیں۔وہ جومعشوق پرجان دینے کوہروقت تیار رہتے تھے، گرانی کے باعث انھیں یوں لینے کے دینے پڑے ہیں کہ جب اپنی ‘جان’ کوریستوراں میں کھانا کھلانے کے بعدبل دیکھ کرجان پربن آتی ہے ،توسامنے بے فکری سے بیٹھی جان سے کہنے کودل چاہتاہے، جان میں تمھیں کسی اورکودیدوں؟”
ذراچشم تصورسے اس مضحک صورت حال کوخیال میں تو لائیے اگر آپ کی ہنسی نہ چھوٹ جائے توکہنا۔دورِحاضرمیں میڈیاکی صورت حال محمدعثمان جامعی نے کس طرح مخمل میں لپیٹ کر ”خبرکے چھ الف” میں پیش کیاہے”۔خبرکی دنیا میں آنے والا ہرشخص یہ سبق پڑھ کرآتاہے کہ خبر چھ چھے کاف سے مل کروجودمیں آتی ہے، یہ کاف انگریزی کے فائیوڈبلیوزاورایک ایچ کی اردوشکل ہیں۔یعنی کون،کب،کیا،کہاں ،کس وجہ سے اورکیسے۔کسی واقعے کے وقوع پذیرہوتے ہیں ان چھے سوالوں کے جواب انھیں خبرکی صورت دیتے ہیں۔ لیکن اے نوواردانِ صحافت ،اے طلبائے ابلاغ عامہ،اے قارئین اخبار اورناظرین ٹی وی، ہم نے یہ جوکچھ کہااسے بکواس سمجھو،یہ چھے کاف اب کسی کام کے نہیں،اب کسی واقعے، حادثے،سانحے،ماجرے کوخبرکی شکل دیتے ہوئے چھ نہیں اسی تعداد میں چھ عدد الف درکار ہوتے ہیں۔ان میں سے کوئی ایک الف بھی خبرسے ٹکراجائے تورپورٹراورمتعلقہ مدیرکی اچھی طرح خبرلی جاتی ہے،اورکبھی کبھی انہیں ساتویں الف کاسامناکرنا پڑتا ہے،جوہے ملازمت کاانجام۔اب ہم آپ کوبتاتے ہیں کہ وہ چھ الف کیاہیں۔اشتہار،خبردینے سے پہلے یہ سوچااوریقین کرلیاجاتاہے کہ کہیں اس خبرسے کوئی کلائنٹ تومتاثر نہیں ہوگا؟ ادارہ۔اسے عام معنی میں ادارہ نہ سمجھیں،یہ بڑے خاص معنی میں ہے،اچھا زیادہ بنئے مت، سمجھ توآپ گئے ہوں گے۔ چلیے پھربھی بتادیں کہ ہم اس ادارے کی بات کررہے ہیں جسے پیارسے مقدس گائے کہاجاتاہے اوراگراس سے متعلق کوئی منفی خبرہوتومیڈیا کاکوئی ادارہ نہیں چاہتاکہ ‘آبیل مجھے مار۔’ اونر۔ اپنے اپنے میڈیاگروپ کے سیاہ سفیدکے یہ مالک سیاہ کرتے ہیں نہ سفیدبل کہ زیادہ ترزرد کرتے ہیں،کیوں کہ زیادہ سے زیادہ کمانے کے لیے زرد رنگ ہی کارگرثابت ہوتاہے۔ان کی ملازمت کرنے والے بعض بھولے صحافی اس بھول میں ہوتے ہیں کہ وہ صحافت کررہے ہیں،حالاں کہ وہ ان کے کاروبارکابس ایک اوزارہیں۔اعلیٰ ترین افسر۔سی ای اوکہلانے والی یہ مخلوق میڈیاگروپ کی کرتادھرتاہوتی ہے۔ ان کے دل میں مالک کے لیے اس کی ماں سے زیادہ مامتاہوتی ہے،جس کا ثبوت وہ مالکان کے کاروبارکووسعت دے کر،ٹیکس بچانے کے طریقے بتاکراورملازمین کی حق تلفی کے ذریعے حاصل ہونے والے مال کاخشک دودہ پلاکردیتے ہیں۔انتقام۔ اگرمیڈیاگروپ کے مالک کی کسی سیاستداں سے ٹھن جائے یاکسی اور شخصیت سے ان بن ہوجائے،کسی ادارے سے اشتہار نہ مل رہے ہوں، توایسے میں انتقامی صحافت غراتے ہوئے ہدف پرحملہ کردیتی ہے ۔ابن الوقتی۔میڈیا مالکان چڑھتے سورج کے پجاری توہوتے ہیں ہیں،ساتھ ہی اپنے کاروبارکے ستارے چمکانے کے لیے فوراسٹارز سے روشنی پاکرکسی کاسورج چڑھاتے ہیں توکسی کاچاندگہناتے ہیں ہیں۔ان کی سوچ ،نظریات اورعمل وقت کے تابع ہوتے ہیں۔ ویسے تویہ ابن الوقت ہوتے ہیں،لیکن وقت پڑنے پرگدھے کوباپ بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔”
موجودہ پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیاکی حقیقت اس طرح عیاں کی جاسکتی ہے۔اس میں بین السطور بھی بہت کچھ ہے، جسے ہربار پڑھنے میں ایک نیالطف آئے گا۔محمدعثمان جامعی میںدرد دل رکھنے والا ایک بہت بڑا طنزومزاح نگار موجودہے۔ جوہرالمناک وقوعے اورسانحے پر تڑپ اٹھتاہے۔ چاہے کوزینب کے قتل کی واردات ہو یاسیاست ،صحافت سمیت کسی بھی شعبے کی کارکردگی ہو۔ ان کا دل تڑپ اٹھتاہے اور کبھی بے اختیار نظم کے پیرائے میں ڈھل جاتاہے اورکبھی کالم یا ولاگ کا روپ دھار لیتاہے۔ لیکن یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ سانحے کی نوعیت کوئی بھی ہو۔عثمان جامعی سے چپ رہا نہیں جاتا۔ وہ اپنے دل کا غبار الفاظ یا مصرعوں کی صورت میں پیش ضرور کردیتے ہیں ۔
آخر میں”چپ رہانہیں جاتا”کے چند ولاگ کے عنوانات پیش ہیں۔جن سے ان کے موضوعات کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔ ”پاکستان کی قومی لفظیات”،”آپ کے مسائل ہمارے ٹوٹکے”،”آؤ سیاحو!سیرکرائیں تم کوپاکستان کی”،” اقوام متحدہ قومی موومنٹ”،” بھیا! پتا کریو لندن پاکستان میں تونہیں”،” مجبوری،زورازوری۔بوری اوراب ٹیسوری”،” مولانا فضل الرحمٰن صدر بن گئے تو” ،”ہمارے شرماتے لجاتے سیاست داں”،”ہمارانیلسن منڈیلا”،” انتخابی،جوابی،سرابی، پیچ وتابی زبانیں”،” کیساہوگا یہ سال۔ہماری پیش گوئیاں”،” جادو اشتہارات کا”،” کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا چونسہ ہوتا”،” جلدآرہاہے لش پش چینل”،” ڈاکٹرفارغ ستارکے لیے کچھ مشورے”،” محمد بن سلمان اورلنسے لوہان کے ایک دوسرے کوٹیکسٹ میسج”،” مرا مزاج بچپن سے کاہلانہ ہے”،”مری تقریر میں مضمرہے ہرصورت خرابی کی” ، ” میں بھی عمران خان ہوں۔ لیکن کون ساوالا”،” مشرق وسطیٰ کا گلوبٹ”،”نوبل انعام کے صحیح حقدار”،”نثری قصیدہ،صحافت کی نئی صنف”، ” پیارے بچو!سنوپرانے پاکستان کی کہانی”،” اگراس دور میں ٹی وی چینل ہوتے”،” بھئی ارطغرل کانام ترک داکھڑا رکھ دیتے”،”کے الیکٹرک۔سرکار کے ہرکار میں خودکارشریک کار”،” متحدہ مجلس عمل کاسلابالجبرنظام”،”رشی سونک،کینیااوربرطانیہ”تذکرہ مارچوں کا”،” تم بھی زبان محفوظ رکھوہماری طرح”،”امیدوارجوعوام کی امیداپنی آرزوپرواردے”،” سیاست کاوقت اوروقت کی سیاست”،”وزیروں کا ٹھکانا،پرندوں کا آشیانہ،واہ کیادوستانہ”،”زرداری کابہادربچہ” اور”ذکرباہرالقادری کا”۔
ان تمام عنوانات سے محمدعثمان جامعی کے موضوعات کی ہمہ گیری کااندازہ کیاجاسکتاہے۔انہوں نے ان ولاگ میں پاکستان کی گذشتہ دو تین دہائیوں کانچوڑ پیش کردیاہے۔ جنہیں پڑھ کرصرف مسکراہٹ یاہنسی ہی نہیں آتی، بلکہ قاری سوچنے پر بھی مجبور ہوجاتاہے۔اس عمدہ کتاب کی اشاعت پرمحمدعثمان جامعی اورکے یوجے کومبارک باد۔۔۔ اللہ کرے زورقلم اورزیادہ۔