اکتوبر نومبر سے شروع ہونے والے گوادر حقوق تحریک پر رائے کا اظہار ہورہا ہے۔ سب سے زیادہ حساس اور سخت گیر ہمارے نادان دوست قوم پرست جماعتوں کے مایوس کارکنان ہیں۔ ان کے علاوہ دانش ور اور لبرل و سیکولر سوچ کے حامل اچھی و بری شخصیات ہیں۔
گوادر حقوق تحریک پر ہلکی پھلکی سنگ باری جاری و ساری کہ ان میں ایک نیا کردار داخل ہوا۔ یہ جناب انور ساجدی ہیں۔ ساجدی صاحب پیرانہ سالی اور احترام و دانش مندی کے باوجود اس میں کود پڑے۔ وہ بھی یکطرفہ طور پر۔ اس پر مکران کے ساحل سے ایک دانش ور و تجزیہ نگار دوست گلاب بلوچ کی آراء ملاحظہ فرمائیں پھر آگے بڑھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
دس دسمبر: فردوسیِ اردو میر انیس کی آج برسی ہے
نو دسمبر: پاکستان کے نامور منی ایچر مصور حاجی شریف کا آج یوم وفات ہے
” ساجدی صاحب آپ ہماری آواز بھی ہیں اور بزرگ بھی۔ لیکن آپ نے بحالتِ مجبوری مولانا ھدایت اور حق دو عوامی تحریک پر ناکامی کا لیبل لگا کر قوم کو مایوس کرکے بلوچستان میں ہونے والے اس جبر ،ظلم، بربریت اور تذلیل و استحصال کو ہمیشہ ہمیشہ قبول کرنے کے لئے مائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر آپ کو حسین واڈیلا سے ہمدردی ہوتی تو آپ ان کی پارٹی کا ان کے ساتھ ظلم کا تذکرہ کرتے ،ان کو نظر انداز کرنے کے قصے چھیڑتے سینیٹ کی ان ٹکٹوں کی تقسیم پر ماتم کرتے ۔۔ سینیٹ ،قومی و صوبائی اسمبلیوں میں رہنے والے بلوچستان کی نمائندگی کرنے والوں کا احتساب کرتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔
آپ اپنے قلم سے آج مولانا اور حسین واڈیلا کو حوصلہ دیتے ، کیونکہ آپ بلوچ قوم کے عظیم دانشور ہیں ۔دانشور قوم کو راستہ دکھاتا ہے، مایوسی کو امید سے بدلتا ہے ، بند راستوں سے راہیں نکالتا ہے ،حوصلہ دیتا ہے مگر افسوس آپ نے قوم کو پیغام دیا کہ اس تذلیل کو برداشت کرو کچھ نہیں ہونے والا۔
اگر آپ تھک چکے ہو تو کوئی بات نہیں ۔ بلوچ نوجوانوں نے شعور کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اگر آپ انہیں حوصلہ نہیں دے سکتے تو کم سے کم انہیں مایوس مت کریں۔
جس تحریک سے مضبوط اور طاقت ور اسٹیبلشمنٹ اور اس کے گماشتے پریشان ہیں ، چین جیسی عالمی طاقت نے اس پر روزانہ بنیاد پر وضاحتیں جاری کی ہیں۔ بلوچ کو تاریکی میں رکھنے والے قوم پرستوں پر لرزا طاری ہے۔ اربوں کمانے والے مافیاز کی نیندیں حرام ہوئی ہیں۔ اس لئے کہ انہیں اس تحریک کی طاقت اور نتائج کا ادراک ہے۔ سراج الحق کی ایک تقریر اور انور ساجدی کے ایک کالم سے یہ تحریک ختم ہونے والی نہیں ہے۔ اس تحریک کے خلاف لوگ اربوں روپے خرچ کرنے کے لئے تیار بھی ہیں۔
سراج الحق ، جماعت اسلامی ، قوم پرست پارٹیاں ، صحافی ،دانشور اور ادیب ایک نہیں ہزاروں ایسے نام ، بلوچ عزت و ناموس اور حقوق کے حصول کے لئے قربان ہیں۔ مگر اس تحریک کو آنچ نہیں آنے دیں گے۔
آپ نے حسین واڈیلا پر بھی طنز کیا ۔ حسین واڈیلا نے اچھی طرح آپ کو بھی پڑھا ہے اور مولانا کا بھی مطالعہ کیا ہے۔ وہ آپ کو بھی اور مولانا کو خوب جانتے ہیں۔ شاید آپ کی زندگی کے روز و شب وہاں نہیں گزرتے جہاں حسین واڈیلا اور مولانا ھدایت الرحمن مظلوم بلوچوں کے ساتھ ایک قید خانے میں روز اذیت سے دوچار ہیں۔ آپ کے کالموں سے زیادہ مولانا ھدایت الرحمن کے کندھوں کی اہمیت حسین واڈیلا کے لئے زیادہ ہے ۔اس لئے وہ ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
گوادر کے عوام بلوچستان میں سب سے زیادہ احساسِ محرومی کے شکار ہیں۔ یہ سب کچھ 1990 اور دو ہزار کے دو عشروں یان کے ساتھ دلفریب وعدے کرنے والے سیاسی جماعتوں و دغاء باز لیڈروں نے کیا ظاہر ہے۔ سول و ملٹری بیوروکریسی ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں ویسے ہی انصاف و ترقی کے بجائے دھوکہ دہی اور کرپشن کے لئے مشہور ہے۔ مگر سیاسی و سماجی شخصیات اور مذہبی و قبائلی رہنماؤں کے دھول و دجل وفریب سے آج ساحل مکران کے علاقے اور گوادر کی انتہائی کم ترین آبادی یعنی ابھی صرف ایک لاکھ مرد و خواتین اور بچے و بچیاں محفوظ ہونے کے بجائے برباد ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس لئے ہدایت الرحمان کے نعرہ مستانہ پر بیک آواز میدان عمل میں کود پڑے۔ ابھی عشق و وفا کے امتحانات سر پر ہیں۔ مسئلہ جماعت اسلامی سے درپیش نہیں ہے۔
جناب انور ساجدی و عابد میر صاحب! جماعت اسلامی تو مکران کے ساحلی علاقوں اور بلوچستان کی آئینی و قانونی حقوق کی حفاظت کے لئے بھرپور عوامی تحریک کی قیادت کرتے ہوئے ظلم و استہزاء سے نجات اور انسانوں کی عزت و آبرو کی حفاظت و تکریم کے لئےعوامی جنگ لڑ رہی ہے۔ گوادر کی طرح سوئی، ڈیرہ بگٹی، ریکوڈک چاغی کے عوام اور لورالائی وہرنائی، چمن ،ایران و افغان باڈر پر واقع نصف صوبہ کے عوام مرد و خواتین اور بچے و بچیاں غربت اور بھوک کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔
صوبے کے عوام کے عوام صوبائی خودمختاری سے آگے بڑھ کر نئے عمرانی و سماجی معاہدے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ عمرانی ارتقاء و فکری شعور کی بیداری کے نتیجے میں روایتی طریقہ کار اور طفلانہ تسلیاں کاریگر نہیں ہے۔
سمندری حیاتیات کی حفاظت ناگزیر ہے۔ اس کے علاوہ مقامی ماہی گیروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے لئے قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ سندھ بلوچستان فشریز کوآپریٹو سوسائٹی کے فرسودہ اور ظالمانہ طریقے کار کو تبدیل کر کے نئے قوانین متعارف کراۓ۔ جس میں گوادر اور مکران کے ساحلی علاقوں کے عوام کی رائے و تجاویز کو قبول کیا جائے۔
بلوچستان کو کالونی سمجھ کر زیر دست رکھنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اس کے بجائے تعمیری اور مثبت و ثمر بار پالیسیاں تشکیل دینے کے لئے نئی اپروچ اختیار کی جائے۔ اورنے اور نئے زمانے کے بدلتے ہوئے رحجانات وترجیحات کے مطابق کھلا مکالمے کا آغاز کیا جائے۔