ADVERTISEMENT
کاروبار کی دنیا میں جب کوئی پروڈکٹ ناکام ہوتی ہے تو اسےضائع نہیں کیا جاتا بلکہ مارکیٹنگ کے ماہرین اسے دوبارہ کسی اور شکل میں تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ دوبارہ مارکیٹ میں لا کر اچھی مارکیٹنگ کے ساتھ اسی پروڈکٹ سے کمایا جاتا ہے۔اسے پروڈکٹ ری برانڈنگ یا ری فریشنگ کہتے ہیں ۔
ستر سال کے تجربے نے یہ ثابت کردیا کہ پاکستان میں خالص دینی جماعتوں کی محدود اور سوائے مخصوص پاکٹوں کے کوئی بڑی قبولیت نہیں ہے، عوام رسمی طور پر دین سے دلچسپی تو رکھتے ہیں لیکن انکی دلچسپی ذاتی و علاقائی مسائل کے حل میں ذیادہ ہے۔
جماعت اسلامی دینی جماعتوں میں ایک واحد تنظیم تھی جو دینی رجحان کے تعلیم یافتہ طبقے کو متاثر کرتئ تھی۔ آج بھی جماعت اسلامی یا اسلامی جماعت طلبہ کے کارکنان و سابقین ہر شعبے کے اعلی ترین تعلیم یافتہ و قابلیت کے حامل دنیا کے ہر گوشے میں مل جاتے ہیں۔
درحقیقت دنیا بھر کی اسلامی تحاریک سوائے افغان طالبان کے، مصر کی اخوان المسلمون سے لیکر ترکی الجیریا و دیگر ممالک کا خمیر روایتی مدارس سے نہیں بلکہ سید مودودی رح کی تحاریر سے اُٹھاہے۔
اسی وجہ سے اس کی پہنچ عام تعلیم یافتہ افراد میں ذیادہ ہے اور ساکھ بھی پاکستان کی کسی بھی سیاسی و دینی جماعت کے مقابلے میں بے داغ ہے، اس لحاظ سے یہ دین و دنیا کا خوبصورت گلدستہ ہے جس کی پہنچ زندگی کے تمام شعبوں میں ہو سکتی ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں جماعت اسلامی اپنے امکانات کے مطابق کامیاب نہیں ہو پائی۔
جماعت اسلامی کے پاس بہترین پروگرام ، انتہائی مخلص قربانی دینے والے کارکنان، اعلی درجے کے تعلیم یافتہ ماہرینٗ موجود ہیں لیکن بدترین مارکیٹنگ اور گذشتہ کئی دہائیوں کی اتحادی سیاست کے ذریعے جماعت کی اس منفرد خصوصیت و شناخت کو تحلیل کرنے کے نتیجے میں جماعت سیاسی طور پر کمزور ہوتی چلی گئی۔
چونکہ کراچی میں ہمیشہ ہی جماعت اسلامی کا اثر و رسوخ پاکستان کے دیگر علاقوں کی بہ نسبت تھا اس لیے اس بات کی توقع کی جاتی تھی کہ جماعت اسلامی کی حیات نو بھی یہیں سے ممکن ہوسکتی ہے۔
اہل کراچی کے ایم کیو ایم کے طوفان میں بہہ جانے سے باوجود یہاں جماعت اسلامی کی جانب نرم گوشہ ہمیشہ ہی رہا ہے صرف اتنا ضرور تھا کہ انہیں جماعت اسلامی کی اپنے مسائل کے بارے میں “تشخیص “ پر اعتراض تھا اور یہ اختلاف ایک شکایت و ناراضگی میں تبدیل ہو گیا۔
لیکن اس ناراضگی و شکایت کے باوجود انہوں نے نعمت اللہ خان کو کراچی کا میئر بنایا اور انہوں نے بھی قابل فخر کارکردگی کے ذریعے عبدالستار افغانی کی قائم کردہ روایت میں نئے باب کو اضافہ کیا۔ پھر بھی زمیں جنبد نہ جنبد گُل محمد کے مصداق جماعت نے کراچی کے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے کی بجائے اپنی مرضی کی دوا پلانے پر اصرار جاری رکھا انجام 2013 اور 2018 ہوا۔
اگست 2016 میں الطاف حسین کے کراچی پریس کلب پر موجود کارکنان سے خطاب کو بھی اس فقیر نے اس کے سیاسی خاتمے کی ابتدا سے تعبیر کرتے ہوئے جماعت کے دوستوں کو ایک خط کے ذریعے التجاء کی تھی کہ اب ایک خلا پیدا ہونے والا ہے جسے پُر کرنے کے لیے جارحانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔
لیکن ایک تو کہا جاتا ہے کہ Big Ships Turn Slowly یعنی بڑے جہازوں کو گھومنے میں وقت لگتا ہے۔ دوسرے یہ بھی گمان کہ ہمارئ اسٹیبلشمنٹ نے ایم کیو ایم کے ہزاروں خون معاف کردئیے یہ تو ایک تقریر ہی ہے، پھر چند دنوں کے بعد وہی سیاہ دن ہوں گے اس لئے کچھ بے یقینی کی کیفیت بھی۔
اسی مخمصے میں 2018 کے انتخابات سر پر آگئے اس وقت ہمارے ایک دوست و مُرشد کراچی میگا سٹی کا آئیڈیا لیکر آئے اور ان کی کوشش تھی جماعت اسلامی اسمبلیاں تحلیل ہونے سے پہلے کم از کم اس سلسلے میں قومئ اسمبلی میں قرارداد ہی پیش کردے تاکہ انتخابات میں اہل کراچی کے سامنے پیش کرنے کے لئے کچھ تو ہو لیکن جماعت اس کے لئے تیار نہیں تھی۔ پاسبان نے اس نعرے کو اپنایا لیکن ان کی سیاسی وقعت نہیں تھی اور کوئی ہلچل نہ پیدا کر دکے۔
جب ایسا محسوس ہونے لگا کہ جماعت اسلامی کا سیاسی رحلت نامہ لکھنے کاوقت ہوا چاہتا ہے، کہ جماعت اسلامی میں تازہ سوچ کی نہ تو گنجائش سمجھی جاتی ہے اور نہ ہی قبول کیا جاتا ہے۔آہستہ آہستہ جماعت اسلامی اپنی سیاسی موت کی طرف جارہی تھی۔ لیکن یہ خبر مریضوں کے لواحقین کو نہ تو دی جاسکتی اور نہ ہی وہ سُنّا برداشت کرسکتے ۔
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
لیکن جماعت اسلامی کراچی کے نسبتا نوجوان ، باہمت اور وژنری امیر حافظ نعیم الرحمن نے جماعت اسلامی کو اہل کراچی کے جذبات سے ہم آہنگ کرکے حقوق کراچی کی مہم کے نام پر اسلامی شوشل جسٹس مومینٹ کی تحریک شروع کردی ۔درحقیقت یہی وہ گمشدہ سرا تھا جس کا اہلیان کراچی تیس سال سے منتظر تھے۔اسی اُمید میں کراچی نے ایم کیو ایم اور پھر تحریک انصاف کو مواقعے دئیے لیکن مایوسی ہی ہوئی ۔
جماعت اسلامی اپنی خدمت و دیانت کے شاندار ٹریک ریکارڑ کے ساتھ اہل کراچی کے اُمیدوں پر پورا اترنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن ایم کیو ایم و پی ٹی آئی کے ہاتھوں دھوکے کھانے کے بعد دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پینے کی وجہ سے پروسیس تھوڑا آہستہ ہے۔
پھر بھی محنت کے ابتدائی حوصلہ افزا نتائج نظر آرہے، نہ صرف اہل کراچی میں جماعت اسلامئ کے لیے گرمجوشی میں اضافہ نظر آیا بلکہ حالیہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں جماعت نے 5 نشستوں پر کامیابی حاصل کئ اور 15 نشستوں پر دوسرے نمبر پررہی۔ کراچی میں جماعت اسلامی نے 38 نشستوں میں حصہ لیا تھا جن میں20 پر پہلے دو نمبروں پر آنا شاندار کامیابی تصور کی جاسکتی ہے۔
کامیابی تو ہنوز دور است پر کامیابی کی خوشبو سونگھنے کا اپنا نشہ ہوتا ہے اور اسباق بھی سیکھے جاتے ہیں، (کاش پہلے ہی ناکامیوں سے سیکھنے کی کوشش بھی کی ہوتی تو آج یہ حال نہ ہوتا ہے)۔ جس طرح شکست جذبات کو سرد کرنے کا سبب بنی ا ہے اسی طرح کامیابی برف کے چھوٹے سے زرّے سے شروع ہو کر ایک گولے میں تبدیل ہو جاتی ہے جیسے snowballing effect کہا جاتا ہے۔
اس snowballing effect کا سب بڑا مظاہرہ بلوچستان میں نظر آیا جب جماعت اسلامی کے مولانا ہدایت الرحمن نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ مقامی لوگوں کے حقوق کا نعرہ لگا کر پورے صوبے میں ہلچل مچادی ہے۔جہاں تک بلوچستان کا معاملہ ہے جماعت کا بدترین مخالف بھی جماعت اسلامی کو ملک دشمن نہیں کہ سکتا ۔اب سوال صرف اتنا ہے کہ کیا برف کا یہ ٹکڑا ایک بڑے گولے میں تبدیل ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب وقت ہی دے سکتا ہے۔
چونکہ بلوچستان کا معاملہ قومی سلامتی سے جُڑا ہواہے اور جماعت اسلامی بلوچستان میں اپنا اثر بہتر بناتی ہے تو یہ ملک و قوم کے لیے بہتر ہی ہوگا کہ جماعت اسلامی کی محب وطن قیادت ملکی مفادات اور مقامی آبادی کی خواشات کے درمیان win win فارمولا تلاش کرکے بلوچستان میں دہکتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
لیکن مولانا مولانا ہدایت الرحمن کی عوامی قبولیت پر اطمیبان کا سانس لینے کی بجائے انتظامیہ جس قسم کے اوچھے ہتھکنڈوں پر آگئی وہ حیران کُن ہے، بجائے جماعت اسلامی کے محب وطن لیڈر کے عوام اور انتظامیہ کے درمیان پُل بننے کی کوشش کا خیر مقدم کرنے کے ان پر ناروا پابندیاں لگانے سے جماعت اسلامی کا سفر تو نہیں رُک پائے گا لیکن اداروں کا اپنا وقار متاثر ہوگا۔
خیر اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں کہ “وہ” بھی بلوچستان کے عوام کے دل و دماغ جیتنے کے بجائے طاقت کے ذریعے حکمرانی کرنے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ مثبت تنقید سُنّا اور ہضم کرنا بھی مشکل لگتا ہے ۔
کراچی پاکستان کا معاشی مرکز ہے اور بلوچستان سیکورٹی کے نقطہ نظر سے پاکستان کی soft belly (پیٹ کا نرم حصہ جہاں خنجر باآسانی سے گھونپا جاسکے) ہے۔ ان دونوں خطّوں میں ہونے والی سیاسی تبدیلی کو کسئ صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر جماعت ان دونوں پر اپنی موجودگی کو مستحکم کرلے تو باآسانی قومی سیاست میں تیسرے نمبر پر آکر اپنے وزن سے بڑا حصہ لے سکتی ہے۔
بظاہر ملکی سیاست میں جماعت اسلامی کے آگے بڑھنے کا سفر شروع ہو کیا ہے اس بات کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ ایک پُراثرقوت میں تبدیل ہو جائے گی۔
اصولی طور پر تحاریک میں افراد کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے، اس کے باوجود اسوقت حافظ نعیم الرحمن اس تبدیلی کا اصل cytalist (عمل انگیز) ثابت ہوئے ہیں اس کے ساتھ ہی مولانا ہدایت الرحمن بھی بلوچستان کے انتہائی قبائلی معاشرے میں ایک عام فرد کا عوامی مقبولیت کی موجوں پر سوار ہو کر آگے بڑہنا اس نظام کے صدیوں سے مسلط مالکان کو پسند نہ آئے۔ اللہ پاک انہیں ایمان صحت و عافیت والی زندگی عطافرمائیں لیکن ان کی زندگی انتہائی قیمتی ہے اور حتی امکان حفاظتی اقدامات میں غفلت نہ کی جائے۔
اب اگلا مرحلہ آپ کی پاس طاقت ہوگی زمین پر آپکا اثر ورسوخ ہو گا تو دوسری سیاسی و “غیر سیاسی” قوتیں بھی آپ سے گفتگو کرنا چاہیں گی آیا ہی چاہتا ہے۔سیاست ممکنات کا کھیل ہے، بات کرنے سے انکار حماقت غیر سیاسی طرز عمل ہے، آپ کا فرض ہے کہ جو بھی بات کرنا چاہے اس سے قومی و جماعتی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتر راستہ تلاش کریں۔
درحقیقت ہماری تینوں بڑی جماعتوں کے سیاسی چودھری بھی حسب ضرورت “ان” سے رابطے میں رہتے ہی ہیں۔ جسے ان کے کارکنان و حامیان واقف ہونے کے باوجود قبول کرتے ہیں۔ویسے بھی تاریخ بہت تلخ ہے تینوں بڑئ سیاسی جماعتیں اپنی تاسیس و ترقی کے لئے کسی نہ کسی مرحلے پر “اُن” کے احسانمند ہیں۔
اس ملک میں نادیدہ طاقتوں کا غلبہ ایک حقیقت ہے، یہی وجہ ہے کہ سول سپریمیسی کے “چیمپین” نظر آنے والے بھی “اندھیرے اُجالے” میں ان ہی کے در کا طواف کرتے ہی ہیں (اسے منافقت نہیں بلکہ سیاسی pragmatism یا عملیت پسندی سمجھتا ہوں)۔
نواز شریف نے اپنے حالیہ بیان میں میں فرمایا کہ ہمیں تو ہمارے مقاصد حاصل کرنے ہیں چاہے مفاہمت کے ساتھ یا مزاحمت کے ساتھ۔۔تب بھی وہ لیڈر ہیں رہے کامیاب بھی۔
ان کا سولین بالادستی کا نعرہ صرف اور صرف اقتدار پر ذاتی بالادستی سے زیادہ کچھ نہیں۔جب بھی اقتدار سے الگ ہوں تو انہیں دوسری سولین حکومت کے خلاف “ ادارے “ سے تعاون کرنے سولیں حکومت کی ٹانگیں کھینچنے میں کوئی عار نہیں ہوتا۔
ہمارے بعض دوست ایک طرف تو جماعت اسلامی کے اسٹیبلشمٹ سے گفتگو کرنے کو بدترین گناہ سمجھتے ہیں دوسری طرف میاں نواز شریف کے سولین بالادستی کے نعرے کی حمایت کرتے وقت انکی اسٹیبلشمنٹ کے تال میل کی تاریخ بھول جاتے ہیں۔ یہ دُھرا معیار بھی عجیب ہے،کہ نواز شریف و پیپلز پارٹی ان کے ساتھ ڈیل کرے تو حلال ۔عمران خان کو وہ کاندھوں پر اُٹھا کر اقتدار کے ایوان میں پہنچادیں تب بھی جائز پر جماعت اسلامی کے بارے میں ان سے بات کرنا بھی بھی لحم الخنزیر۔ اصولوں کا بھاشن اور فوج کی بی ٹیم طعنہ ۔
ایں چہ بوالعجبی است۔