بلوچستان حکومت اور اپوزیشن کی غیرسنجیدگی ،عوام و خواص دونوں بے زار ہیں کیونکہ وہ تباہی کے راستے پر چل نکلے ہیں۔ یہ بات ہم ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ ملک اور صوبوں سمیت کشمیر و گلگت بلتستان میں بجٹ اجلاس کے موقع پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مشترکات و ترجیحات میں اتفاق نہ ہونے کے باعث شدید ردعمل اور انتہائی اختلاف ابھر کر سامنے آتا ہے مگر دونوں جمہوری اور پارلیمانی نظام حکومت میں رہتے ہوئے بالآخر چل چلاؤ کی پالیسی و دانش پر چلنے میں سکون و عافیت محسوس کرتے ہیں مگر بلوچستان اپنے حسین و دلکش انداز اور روایات کے برعکس 2021 / 22 بجٹ سازی کے مراحل سنجیدگی سے ایڈریس نہیں کرسکے اور 18 جون کو ہونے والی ہاتھا پائی کا انجام بالآخر حکومت کی جانب سے ایف آئی آر واپس لینے کی صورت میں ہوا اور کوئی دو ہفتوں بعد آج اپوزیشن رہنما تھانے سے واپس نکل آئے۔
اس سارے قصے میں دونوں فریقین کی غیرسنجیدگی عروج پر رہی۔ معاملے میں کسی ایک کو قصوروار قرار نہیں دیا جا سکتا، البتہ تنازعے کا اصل سبب حکومت ہی رہی اور اسے بڑھاوا دینے میں قائد ایوان کی انا اور ان کے نااہل مشیروں نے اہم کردار ادا کیا۔ اصل تنازع کہاں سے شروع ہوا؟موجودہ پارلیمانی سیاست میں بجٹ ہی وہ واحد ایونٹ ہے جس میں تمام اراکینِ اسمبلی کی بھرپور دلچسپی ہوتی ہے۔ خصوصاً پی ایس ڈی پی میں اپنے علاقے کے لیے مختلف اسکیمیں منظور کروانا سب کی ترجیح ہوتا ہے۔ اس میں کروڑوں کی کمیشن بھی ہوتی ہے اور علاقے میں کچھ کام بھی ہوتا ہے جس سے ووٹروں کو مطمئن کیا جاتا ہے۔
موجودہ حکومت نے کشیدگی کے باعث اس بار اپوزیشن کو بجٹ سے مکمل لاعلم رکھا اور انہیں دیوار سے لگا دیا۔ اپوزیشن کو بجٹ سے کچھ نہیں ملا اور اربوں روپے کے لایعنی پروجیکٹس حکومتی نمائندوں نے اپنے نام کیے۔ ظاہر ہے کہ یہ زیادتی تھی۔ اپوزیشن کا اس پر احتجاج بنتا تھا۔ مگر احتجاج کا جو طریقہ انھوں نے اپنایا وہ غیرقانونی، غیرآئینی اور غیراخلاقی تھا۔ بجٹ سیشن کے روز اسمبلی کے تمام دروازوں پہ تالے لگا کر بند کر دیا گیا تاکہ قائد ایوان جام کمال اسمبلی نہ آ سکیں۔ حکومت نے اس کے جواب میں ایک اور غیر قانونی و غیراخلاقی کارروائی کی اور گیٹ کو زبردستی بند کرنے والے اراکین پہ بکتر بند گاڑی چڑھا دی۔ اس میں کئی لوگ اور دو ممبران اسمبلی جے یو آئی ف کے جناب عبدالواحد صدیقی اور بی این پی مینگل کے جناب بابو رحیم مینگل زخمی ہوئے۔ ان دونوں ممبران اسمبلی سمیت دیگر افراد پولیس کی بکتر بند گاڑی چڑھانے کی ویڈیو دیکھیں اور پھر اپوزیشن کے غیر سنجیدگی، شرمندگی اور انتہائی نامناسب و بغیر تیاری کے بے ڈھنگے احتجاج کی حالت زار کیا بنی اور اس کے ردعمل میں وہاں موجود کارکنوں نے ایک اور غیراخلاقی حرکت کرتے ہوئے جام کمال پہ جوتا پھینک دیا (بقول کسے چار جوتے پھینکے گئے)۔ اس سب کے بعد حکومت نے اپوزیشن اراکین پہ ایف آئی کٹوا دی۔ اپوزیشن اراکین اگلے ہی روز رضاکارانہ طور پر مشترکہ گرفتاری دینے کو تھانے پہنچ گئے۔ اب یہ صورت حال انتظامیہ کے لیے ایک دردسر تھی۔ اپوزیشن اراکین دو ہفتے جیل میں بیٹھے رہے۔ کئی وزیروں اور کابینہ اراکین کے اصرار کے جام کمال نے ایف آئی آر واپس لینے سے صاف انکار کر دیا۔ بالآخر بیچ کا راستہ نکالتے ہوئے اسپیکر کی جانب سے ایک رولنگ دی گئی جس کے نتیجے میں رات گئے یہ ایف آئی آر ختم ہوئی۔ اور آج یہ معاملہ اختتام کو پہنچا۔
اپوزیشن نے البتہ اب اپنی تحریک سڑکوں پر اور ہر شہر میں لڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یعنی ممبران اسمبلی سمیت جمہوری پارٹیوں کے لئے بھی اسمبلی و پارلیمنٹ پر قناعت نہیں ہے،جمہوریت اور آج کے پارلیمانی انتخابات پشتو کے کہاوت کے مطابق زرندہ کہ دہ پلار دہ ہم پہ وار دہ یعنی آٹا پیسنے والی چکی اگر باپ کی ہے تب بھی وہ اپنے اپنے باری پر ہی دستیاب ہوگی۔
باپ سے مراد یہاں باپ پارٹی نہیں ہے عقل مندوں کے لئے اشارہ ہی کافی ہے۔
جام کمال نے گزشتہ تین برس میں ثابت کیا ہے کہ وہ نہایت اناپرست اور متکبر حکمران ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ جب تک انہیں لانے والوں کا دست شفقت ان کے سر پر موجود ہے، کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور ہر سطح پر اپنی من مانی کرتے ہیں اور اس پہ اڑ جاتے ہیں۔ گو کہ وہ اس دست شفقت سے اپنا وقت تو مکمل کر لیں گے مگر ایوان میں اور ایوان سے باہر اچھے لفظوں میں یاد نہیں کیے جائیں گے اور یوں وہ خود بھی اپنے والد میر جام یوسف صاحب مرحوم اور دادا میر جام غلام قادر مرحوم کے تربیت و اسکلز سے صوبے کے عوام الناس کو محروم رکھیں گے۔
جناب جام کمال خان عالیانی صاحب کو یاد رہنا چاہیے کہ سب کچھ باپ پارٹی کے اشاروں اور خود ساختہ بوجھل قدموں سے نہیں چلتے ہیں کچھ روایات صوبے اور قوموں کے ہیں کچھ روایات و اقدار ہمیں باپ دادا سے ورثے میں ملے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب اپوزیشن کا طریقہ کار بھی غیرسنجیدہ رہا۔ اسمبلی کو تالے لگانا، قائد ایوان پر جوتا اچھالنا، گالم گلوچ سے بھری نعرے بازی کرنا انہیں شیوہ نہیں دیتا تھا۔ بلوچستان کے اہم سلگتے ہوئے سیاسی مسائل کو چھوڑ کر محض پی ایس ڈی پہ سارا احتجاج فوکس کرنا کوئی سیاسی دانش مندی نہیں۔ اپوزیشن جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی سربراہ مولانا عبدالواسع کاکڑ صاحب سمجھدار اور سنئیر وزیر رہے ہیں۔ معلوم نہیں کہ وہ اپوزیشن لیڈر کو کیوں نہیں ڈیل کرسکتے ہیں جنھیں مولانا محمد خان شیرانی صاحب نے تھانے میں ہی پٹی پڑھائی۔ اگرچہ یہ مولانا شیرانی صاحب کے ہی تربیت یافتہ تھے بی این پی مینگل کے سربراہ جناب سردار اختر جان مینگل صاحب ملک سے باہر ہے اور ان کی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل پارلیمانی امور سے لاتعلق اور ایک لحاظ سے بے بس ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی،پاکستان مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی پاکستان سمیت ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صاحب کی نیشنل پارٹی صوبائی اسمبلی میں موجود نہیں ہیں۔ پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی پیچھلی مرتبہ 14/ 15 سیٹوں کے بعد صرف ایک ممبر اسمبلی جناب نصراللہ خان زیریی کے ساتھ صوبائی اسمبلی میں موجود ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے مرکزی رہنما و ممتاز قوم پرست لیڈر جناب عثمان خان کاکڑ صاحب کا جانکاہ حادثہ 17 جون بروز جمعرات پیش آیا اور جمعہ مبارکہ 18 جون سے بلوچستان کی صوبائی حکومت اور کمزور اپوزیشن پی ایس ڈی پی او ترقیاتی منصوبوں میں حصہ داری پر گھتم گھتا ہیں عثمان خان کاکڑ جیسے جی دار لیڈر کی داد رسی اور بھرپور و بروقت گرفت صوبائی حکومت کی طرح اپوزیشن جماعتیں بھی نہیں کر سکیں جبکہ عملاً اس وقت افغانستان کی تازہ صورت حال سے خطے میں ایک نیا پینڈوراکس باکس کھلنے والا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ متاثر بلوچستان ہو گا۔ مگر حکومت اور اپوزیشن اتنے اہم تاریخی واقعے سے لاتعلق محض اسکیمات پہ گتھم گتھا ہے۔ یہ رویہ دونوں کی غیرسنجیدگی اور اصل عوامی مسائل سے لاتعلقی کا غماز ہے اور تاریخ کا سبق یہی ہے کہ جو عوام سے لاتعلق رہا، عوام بھی اس سے لاتعلق رہ کر تاریخ کے کوڑے دان کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس لئے اسٹیٹس کو والی جماعتوں اور گروہوں کے ساتھ چلتے چلتے معاشرتی اور اخلاقی اقدار کی بربادی کے ساتھ سیاسی و سماجی شعور بھی کھوئے ہوئے ہیں اس لئے متبادل سیاسی و سماجی شعور اور فکری و سائنسی بیانیے کی تشکیل و تعبیر نو کی ضرورت ہے تاکہ مفید اور تعمیری ماحول میں انسانیت کی خدمت و دادرسی اور فکری و سائنسی رہبری کا سوال حل کیا جاسکے۔