میرا پہلا شناختی کارڈ اگست 1984ءمیں بنا تھا اور 1985ءمیں جب میں اپنی پہلی سیاحت پر وادیِ سوات گیا تو نیا شناختی کارڈ میرے پاس تھا۔ سوات سے واپسی پر میں پہلے اسلام آباد آیا اور زندگی میں پہلی مرتبہ اس چمن زار شہر کو دیکھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ہم تو شہر صرف کراچی کو سمجھتے تھے۔یقین نہیں آتا تھا کہ شہر اس قدر خوبصورت بھی ہوسکتے ہیں۔ اور اسلام آباد میں رہتے ہوئے جب مری، ایوبیہ ، نتھیا گلی کی سیر کی تو دنیا کی ان حسین ترین وادیوں نے بھی ہوش اڑا کر رکھ دیئے۔اسلام آباد سے میں بذریعہ بس لاہور گیا تاکہ اپنے پسندیدہ سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ سے ملاقات کر سکوں۔ اسلام آباد سے لاہور جانے والی گورنمنٹ ٹرانسپوٹ سروس کی اس نیلی بس کا کرایہ غالباً 15روپے تھا۔ مجھے بس کی آخری سیٹ ملی تھی۔تھوڑی دیر میں ہی مجھے نیند آ گئی۔ سوتے ہوئے خدا جانے کب میری پینٹ کی پچھلی جیب سے میرا پرس نکل کر نیچے گرگیا اور مجھے پتہ ہی نہ چلا۔
جب میں لاہور میں لاری اڈے سے باہر نکلا تو اچانک اندازہ ہوا کہ پرس غائب ہے۔ پرس میں کچھ پیسے بھی تھے اور میرا شناختی کارڈ بھی اسی میں تھا۔ پیسے تو خیر زیادہ نہیں تھے اور میں نے بقیہ رقم احتیاطاً اپنے بیگ میں رکھی ہوئی تھی، البتہ شناختی کارڈ گم ہونے کی کچھ پریشانی ہوئی۔ لیکن پھر یہ سوچ کر خود کو تسلی دی کہ اگر کسی کو یہ کارڈ ملا تو اسے لیٹر بکس میں ڈال دے گا اور امید ہے کہ کچھ دن میں مجھ تک واپس پہنچ جائے گا۔لاہور پہنچ کر ایک واقف کار کے گھر والٹن کے علاقے میں قیام کیا۔
اگلے دن ان کی سائیکل لے کر شہر کی سیر کو نکلا۔ یہ میرا لاہور کا دوسرا دورہ تھا۔ اس سے قبل چار سال پہلے میں 1981ءمیں یہاں اپنے اسکول کے ساتھ آیا تھا۔اس لئے اب لاہور میرے لئے ایک یکسر اجنبی شہر نہیں تھا۔ چنانچہ میں شہر کی خوبصورت اور وسیع سڑکوں پر سائیکل کے پیڈل مارتا خراماں خراماں چلا جا رہا تھا۔
آج مجھے مستنصر حسین تارڑ سے ملنا تھا اور مزے کی بات یہ کہ میرے پاس نہ اس کا کوئی ایڈریس تھا نہ کوئی فون نمبر۔ بس اس کی کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ اس کے والد رحمت خان تارڑ صاحب کی چیمبرلین روڈ پر ”کسان اینڈ کمپنی“ کے نام سے نباتاتی بیجوں کی دوکان تھی، تو بس میں اسی نشانی پر راہگیروں سے پوچھتا پاچھتا چیمبرلین روڈکی طرف رواں دواں تھا۔
میں بچپن سے نکل کر لڑکپن کی حدود میں داخل ہوا تو بچوں کی کتابوں اور رسالوں سے تعلق رفتہ رفتہ کم ہوااور ادبی کتابوں کی طرف رجحان بڑھنے لگا۔ سب رنگ،اردو ڈائجسٹ اور سیارہ ڈائجسٹ ہمارے گھران دنوں باقاعدگی سے آتے تھے اور اعلیٰ ادب پیش کرنے والے ان رسالوں کا مطالعہ ذہن کو شروع ہی میں سنجیدہ ادب کی طرف مائل کر چکا تھا۔
70ءکے عشرے میں سیارہ ڈائجسٹ میں بہت عمدہ سفر نامے شائع ہوئے۔ ان میں سے ایک مستنصر حسین تارڑ کا سفرنامہ ”نکلے تیری تلاش میں“ تھااور دوسرا محمد اختر ممونکا کا ”پیرس 205 کلو میٹر“….یہ پاکستان سے یورپ تک کے زمینی سفر پر مشتمل بہت اعلیٰ پائے کے سیاحت نامے تھے۔ سیارہ ڈائجسٹ میں مَیں نے مستنصر حسین تارڑ کی جو سب سے پہلی تحریر پڑھی وہ ان کے سفر نامے ”نکلے تری تلاش میں“ کا ایک باب ”الپس کے آسیب زدہ قصبے“ تھا۔ یقین جانیں کہ اس سفری قصے کو پڑھ کر میں کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گیا اور آج بھی ان صفحات کا عکس میرے ذہن کی اسکرین پرمحفوظ ہے۔
میں نے زندگی میں جو پہلی ادبی کتاب خریدی وہ مستنصر تارڑ کا سفر نامہ ”نکلے تیری تلاش میں“ ہی تھا۔ تارڑ کے اس سفرنامے نے میرے دل میں سفر کی وہ جوت جگا ئی کہ جو آج تک روشن ہے۔ اس لئے آج میں مستنصر تارڑ ہی سے ملنے لاہور آیا تھا۔
والٹن روڈ سے چیمبر لین روڈ تقریباً ۲۳ کلومیٹر دور تھا، لیکن لڑکپن کے جوش و جذبے نے اس طویل فاصلے کا احساس ہی نہیں ہونے دیا اور میں سائیکل چلاتا ہوا بالآخر چیمبر لین روڈ پہنچ ہی گیا۔ کچھ دیر تلاش کے بعد ”کسان اینڈ کمپنی“ بھی مل گئی۔ یہ مین روڈ پر ایک مختصر سی دوکان تھی جہاں کاؤنٹر کے پیچھے ایک بزرگ عینک لگائے بیٹھے رجسٹر میں کچھ اندراج کر رہے تھے۔میں نے سائیکل دوکان کے سامنے اسٹینڈ پر کھڑی کی اور دوکان میں داخل ہو کر بزرگ کو سلام کیا۔
”وعلیکم السلام۔ جی فرمائیے؟“ انہوں نے پین رکھ کر میری طرف دیکھا۔
”جی مجھے مستنصر حسین تارڑ صاحب سے ملنا ہے۔“
میری آواز پر میری طویل سائیکلنگ کی تھکن غالب تھی۔
”جی بیٹا تم ٹھیک جگہ آئے ۔ مستنصر میرا بیٹا ہے۔ لیکن وہ تو گھر پہ ہے …. اس کو تو آج بخار ہے۔“
”اوہ….اچھا…. چلیں کوئی بات نہیں۔ میں پھر بعد میں کبھی آ جاؤں گا۔“
میں کچھ مایوس ہوا۔
”تم یہاں کے نہیں لگ رہے ہو…. کس شہر سے آئے ہو؟….“ وہ بولے۔
”جی میں کراچی سے آیا ہوں۔“ میں بولا۔
”اور ابھی سائیکل پر کہاں سے آئے ہو؟“
انہوں نے باہر کھڑی سائیکل کی طرف اشارہ کیا۔
”جی والٹن کیمپ سے۔“ میں نے جلدی سے جواب دیا۔
”والٹن سے؟…. سائیکل پر؟ ….“ وہ حیران ہوئے۔
”جی جی…. سائیکل پر۔“ میں نے سائیکل کی طرف اشارہ کیا۔
”اوہ…. بڑی ہمت کی بھئی تم نے ۔ اچھا تم اس کرسی پر بیٹھ جاؤ۔ میں اپنے بیٹے کو فون کرتا ہوں۔“
انہوں نے سامنے رکھی کرسی کی طرف اشارہ کیا اور سائڈ میں رکھے ٹیلی فون کا ڈائل گھمانے لگے۔
”ہیلو…. مستنصر…. بیٹا یہ کوئی لڑکا تم سے ملنے آیا ہے کراچی سے۔ بڑی دور والٹن کیمپ سے سائیکل چلاتا ہوا یہاں میرے پاس پہنچا ہے۔ میں اس کو گھر بھیج رہا ہوں تمہارے پاس۔ اس سے ضرور ملنا۔“
وہاں سے خدا جانے کیا جواب آیا۔ انہوں نے فون رکھا۔میرے لئے چائے منگائی اور چائے نوشی کے دوران مجھے اپنے گھر کا راستہ سمجھانے لگے:
”تمہیں گلبرگ تھری جانا پڑے گا…. اور یہ جہاں تم رہ رہے ہو…. والٹن کیمپ…. یہ اس کے بالکل قریب ہے۔ مستنصر گھر پہ ہے۔ “
میں نے چائے پی کر ان کا شکریہ ادا کیا اور پھر پیڈل پہ پیڈل مارتا پوچھتا پاچھتا مال روڈ سے نہر، نہر سے اَپر مال، اَپر مال سے گلبرگ، وہاں سے لبرٹی ، لبرٹی سے مین مارکیٹ، مین مارکیٹ سے منی مارکیٹ اور منی مارکیٹ سے گلبرگ تھری فردوس مارکیٹ پہنچ گیا۔ فردوس مارکیٹ کے پیچھے ایک تکونے پارک کے ساتھ والی خاموش سی سڑک پر ایک سفید بنگلے کے باہر ”مستنصر حسین تارڑ“ کی تختی لگی تھی۔بیل بجانے پر تارڑ صاحب کا چھوٹا بیٹا سُمیر باہر آیا، میرا نام پوچھا اور مجھے بنگلے کے عقب میں ایک ایسے کمرے میں لے گیا جس کی ساری دیواروں پر بک شیلف میں کتابیں ہی کتابیں تھیں۔
یہ تارڑ صاحب کی اسٹڈی تھی۔ کچھ دیر میں ہی تارڑ صاحب ایک شال لپیٹے ہوئے وہاں آ گئے۔ انہیں اس وقت بھی بخار تھا، لیکن اس کے باوجود وہ اگلے دو ڈھائی گھنٹے میری باتیں بھی سنتے رہے اور اپنی گفتگو بھی کرتے رہے۔ میں بڑا خوش ہوا۔ وہ بھی خوش ہوئے۔ ان سے وہ پہلی ملاقات مجھے آج تک اچھی طرح یاد ہے اور تارڑ صاحب بھی اکثر اس دن کو یاد کرتے ہیں۔
اگلے دن میں ریل گاڑی سے کراچی روانہ ہو گیا۔ کراچی پہنچے ابھی کچھ ہی دن گزرے ہونگے کہ ڈاکیہ میرے نام ایک لفافہ دے کر گیا۔ یہ لالہ موسیٰ سے آیا تھا۔ میں نے لفافہ کھولا تو اس میں ایک تو خط تھا اور دوسری چیز تھی میرا گم شدہ شناختی کارڈ۔ شناختی کارڈ دیکھ کر تو دل باغ باغ ہو گیا۔
خط ایک لڑکے نے لکھا تھا جسے ایک بس کی پچھلی سیٹ سے میرا پرس اور شناختی کارڈ ملا تھا۔میں بڑا خوش ہوا اور اگلے دن ایک خوبصورت پین خرید کراس لڑکے کو بطور تحفہ بذریعہ ڈاک روانہ کر دیا۔پین کچھ دن میں اس تک پہنچ گیا۔ لیکن اس کی خود اس لڑکے نے تو مجھے کوئی اطلاع نہ دی، البتہ اس کی کنفرمیشن کچھ دن بعد لالہ موسیٰ ہی سے آئے ہوئے ایک اور خط سے ہو گئی۔ وہ خط اس لڑکے کے بڑے بھائی نے لکھا تھا ۔ اس نے مجھے یہ اطلاع دی تھی کہ بس میں سے میرا وہ گمشدہ پرس اس کے چھوٹے بھائی کو نہیں بلکہ خود اسے ملا تھا۔ چنانچہ اس کا شکوہ یہ تھا کہ مجھے وہ پین کا تحفہ اس کے چھوٹے بھائی کو نہیں بلکہ اسے بھیجنا چاہئے تھا۔ یعنی وہ زیر لب یہ کہنا چاہتا تھا کہ میں اسے بھی ایک عدد تحفہ بھیجوں۔ مجھے تو یہ خط پڑھ کر بہت ہنسی آئی اور میں نے بس ہنسنے پہ ہی اکتفاءکیا۔
سیاح ذہن ہونے کی وجہ سے سواری کا مجھے شروع سے ہی شوق رہا ہے۔ پہلی گاڑی تو وہی تین پہیوں والی رنگ برنگی سائیکل تھی کہ جو میری عمر کے اکثر لوگوں کو بچپن میں ابا دلواتے تھے۔ لوہے کے پائپ، ریگزین کی گدیاں اور ٹھوس ربر کے ٹائروں والے تھالی نما پہیے۔ اس سائیکل کی ایک بڑی خرابی یہ تھی کہ اس کی پچھلی سیٹ پر چھوٹے بھائی کو بھی بٹھانا پڑتا تھا ورنہ وہ رو رو کر آسمان سر پہ اٹھا لیتا تھا۔
پھر کچھ بڑے ہوئے تو ابا کی ہرکولیس سائیکل پر طبع آزمائی شروع کی۔ سیکنڈری اسکول گھر سے آٹھ دس کلومیٹر دور تھا۔ وہاں اکثر بس میں بیٹھ کر ہی جانا ہوتا تھا لیکن جب ابا کی سائیکل گھر پہ ہوتی تو میں وہی لے کر اسکول چلا جاتا تھا۔ 1983ءمیں کالج میں آیا تو پہلی مرتبہ اپنی سائیکل خریدی اور اسے بھی لائٹ ہاؤس کی سائیکل مارکیٹ سے ملیر کھوکھراپار تک چلا کر ہی لائے۔ لیکن اس سائیکل پر روزانہ کالج جانا مشکل تھا کیونکہ ڈی جے کالج ملیر سے بہت دور تھا۔
البتہ باقی سارے کام، سودا سلف لانا، دوستوں سے ملنے جانا اور سعود آباد، ماڈل کالونی، لیاقت مارکیٹ ، کالا بورڈ، ملیر سٹی اور قائدآباد تک کی ساری بھاگ دوڑ اسی سائیکل پر جاری رہتی تھی۔اسی لئے لاہور میں بھی مجھے مستنصر تارڑ کی تلاش میں شہر کے طول و ارض میں سائیکل دوڑانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ بلکہ بعد میں جب ماہنامہ رابطہ کیلئے پاکستان کے کئی شہروں پرتعارفی مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تو اس دوران بھی میں ہر شہر پہنچ کر وہاں سب سے پہلے ایک سائیکل کا انتظام کرتا اور پھر اسی پر شہر بھر کی سیر کر کے ذاتی مشاہدات کرتا۔ اس طرح تحریر بھی جاندار بنتی۔
1988ءمیں، جب میں یونیورسٹی میں تھا اور ملیر کے طول و ارض میں سائیکل پر ہی جا جا کر ٹیوشنیں پڑھاتا پھرتا تھا، تو ایک دن اخبار میں ایک اشتہار دیکھ کر پھڑک اٹھا۔ یہ ایک ایسے چھوٹے سے انجن کا اشتہار تھا جسے کسی بھی سائیکل میں فٹ کر کے اسے موٹر سائیکل میں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ یہ انجن کوریا کی کسی Daewoo کمپنی کا تیار کردہ تھا اور کراچی میں نیو چالی پر آدم آٹو موبائلز کمپنی اسے تین ہزار روپے میں فروخت کر رہی تھی۔
اس وقت پاکستان میں Daewoo کمپنی کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ کئی سال بعد میں موٹروے کی تعمیر اور اپنی جدید بس سروس کی وجہ سے یہ معروف ہوئی۔ آدم آٹو موبائلز سے بھی اس وقت زیادہ لوگ واقف نہیں تھے۔ کئی سال بعد 1998ءمیں انہوں نے ”REVO“ کے نام سے پاکستان میں اپنی مقامی طور پر تیار کردہ کار متعارف کروائی تھی، لیکن وہ زیادہ کامیاب نہیں ہو سکی۔ تو بہر حال جب میں نے اس انجن کا اشتہار دیکھا تو دل میں لڈو پھوٹنے لگے کہ اب میں اپنی سائیل میں یہ انجن لگاؤں گا اور کراچی میں دور دور سیر کرنے جاؤں۔ یہ سارا ہیجان اپنی جگہ، لیکن اہم سوال یہ تھا کہ اس انجن کو خریدنے کیلئے تین ہزار روپے کہاں سے آئیں گے؟….
ابا سے تو کوئی امید نہیں تھی کہ وہ یہ ” خطرناک“ چیز مجھے خریدنے دیتے،بلکہ مجھے تو یہ کام ان سے چھپ کے کرنا تھا۔ اس وقت میں جو ٹیوشن پڑھاتا تھا وہاں سے مجھے 300 روپے مہینہ ملتے تھے۔ لیکن مجھے تو اس سے دس گنا زیادہ رقم یکمشت چاہئے تھی۔ میں نے ٹیوشن والے بچوں کے ابا سے پوچھا کہ وہ مجھے کتنے مہینے کی فیس ایڈوانس دے سکتے ہیں؟ انہوں نے کمال مہربانی سے تین مہینے کا ایڈوانس دینے کی ہامی بھر لی۔ لیکن ابھی مجھے 2100 روپے کا مزید انتظام کرنا تھا۔ کیسے؟ …. کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔
ایک دن میں سعود آباد سے ٹیوشن پڑھا کر اسی ادھیڑ بن میں چلا آ رہا تھا کہ اچانک ایک بڑی دوکان ”سعودیہ ٹریڈرز“ پر نظر پڑی۔ اس کے بورڈ پراہل محلہ کیلئے یہ خوشخبری تحریر تھی کہ وہ ان سے ہر طرح کا الیکٹرونک سامان، ٹی وی، فرج، واشنگ مشین وغیرہ کے ساتھ ساتھ موٹر سائیکل اور سائیکل بھی آسان قسطوں پر لے سکتے ہیں۔ یہ پڑھتے ہی یکایک میرے اندرایک امید جاگی اور میں نے فوراً اپنی سائیکل اس دوکان کے سامنے روک دی۔
ٹی وی فرج واشنگ مشینوں کے بیچ میں ایک بزرگ بیٹھے ہوئے تھے۔میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ سائیکلیں بھی قسطوں پر دیتے ہیں؟
”جی بالکل دیتے ہیں۔ آپ کو کونسی سائیکل چاہئے؟“ وہ بولے۔
”جی مجھے سائیکل تو نہیں چاہئے، سائیکل کا انجن چاہئے۔“ میں نے کہا۔
”سائیکل کا انجن؟ …. وہ کیا ہوتا ہے؟….“ وہ مجھے حیرت سے دیکھنے لگے۔
”میں نے اپنی جیب سے اخبار کا انجن کے اشتہار والا تراشہ نکال کر انہیں دکھایا۔
”یہ تو ہمارے پاس نہیں۔ ویسے یہ ہے کتنے کا؟“
وہ اشتہار پر سرسری نظر ڈال کر بولے۔
”جی یہ تین ہزار روپے کا ہے۔“ میں نے کہا۔
”کہاں سے ملے گا؟“
”جی نیو چالی ، آئی آئی چندریگر روڈ سے۔“
”آپ کا شناختی کارڈ بنا ہوا ہے؟“ وہ بولے۔
”جی بالکل بنا ہوا ہے۔“ میں بولا۔
”اور آپ کے اپنے پاس کتنے پیسے ہیں؟“
”جی میرے پاس تو صرف 900 روپے ہیں۔“
میں جلدی سے بولا۔
”اوہ…. یعنی آپ کو 2100 روپے اور چاہئیں؟“
”جی جی۔“ میں خوش ہو کر بولا۔
”کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ اپنے شناختی کارڈ اور گارنٹی پر ہم سے یہ پیسے لے کر انجن خرید لیں اور ہمیں یہ رقم سال ڈیڑھ سال میں کچھ اضافے کے ساتھ قسطوں میں ادا کر دیں۔“
لو بھائی یہ تو مسئلہ ہی حل ہو گیا۔ میں اچھل پڑا۔ اگلے ہی دن میں نے ٹیوشن کے ایڈوانس نو سو روپے لئے، سعودیہ ٹریڈرز والوں سے اکیس سو روپے لئے اور سائیکل چلاتا ہوا سیدھا نیو چالی پہنچ گیا۔ کچھ ہی دیر میں میری سائیکل میں انجن فٹ ہو گیا۔
اس انجن میں ایک ایسا گراری نما فولادی رولر تھا جو اسٹارٹ ہونے پرسائیکل کے پچھلے ٹائر پر سختی سے جم کر اسے اپنے ساتھ گھمانے لگتا تھا۔ اس سے سائیکل موٹر سائیکل کی طرح دوڑنے لگتی تھی۔ یہ خوبی تو اپنی جگہ، لیکن اس طرح ٹائر بہت جلدی گھس جانے کا خطرہ تھا۔ بہر حال اس وقت تو میں نے یہ نہیں سوچا اور انجن فٹ کرواکے سائیکل کو پیڈل سے چلاتا ہوا قریبی پیٹرول پمپ تک پہنچ کر پلاسٹک کی ٹنکی پیٹرول سے فل کروالی۔ پھر انجن اسٹارٹ کر کے سائیکل کو محتاط رفتار سے ”ڈرائیو“ کرتا ہوا ملیر تک پہنچ گیا۔
راستے بھر تماشا رہا۔ راہگیر سائیکل میں سے نکلتی انجن کی آواز سن کر چونکتے اور گاڑیوں میں سوار لوگ کھڑکیوں میں سے سر نکال نکال کر میری اس عجوبہ سائیکل کو دیکھتے اور پھر تالیاں اور سیٹیاں بجاتے۔محلے میں پہنچا تو وہاں بھی یک اودھم مچ گیا۔ محلے کے سارے لڑکے بالے اس انجن والی سائیکل کو دیکھنے میدان میں پہنچ گئے۔ میں تقریباً ہیرو بن گیا۔ محلے والے جو پہلے ہی میری ”ٹیکنیکل“ حرکتوں سے واقف تھے، انہوں نے اس دن باقاعدہ طور پر میرا نام ”بابو سائنسدان“ رکھ دیا گیا۔
اگلے دن میں اس سائیکل کو اپنی این ای ڈی یونیورسٹی لے گیا۔ میں نے ماڈل کالونی اور ملیر کینٹ والا شارٹ کٹ راستہ اختیار کیا۔ راستے میں آنے والی چیک پوسٹوں پر کھڑے فوجیوں نے بھی مجھے روک روک کر بڑی دلچسپی سے اس عجوبہ سائیکل کا معائنہ کیا اور مجھے شاباش دی۔یونیورسٹی پہنچا تو وہاں بھی ایک تماشہ لگ گیا۔مذاق بھی خوب اڑایا گیااور مرکزی کمپاؤنڈ میں اسے چلانے کا مظاہرہ کرنے پر تالیاں بھی خوب بجیں۔
اگلے کئی ماہ یہ انجن میں استعمال کرتا رہا اور شہر بھر میں دور دراز مقامات، صدر، کلفٹن، لیمارکیٹ اور ہاکس بے وغیرہ تک گھوم آیا۔ البتہ ٹائروں کے جلدی گھس جانے والی خرابی نے رفتہ رفتہ مجھے پریشان کر دیا۔ بالآخر کچھ عرصے بعد محلے کے ایک لڑکے نے یہ انجن مجھ سے 2500 روپے میں خرید لیا تو اس ہیجان کا اختتام ہوا۔
میرے دوست خصوصاً یونیورسٹی فیلوز آج بھی اس سائیکل کو یاد کرتے ہیں، بلکہ این ای ڈی یونیوسٹی کے فیس بک پیجز اور واٹس ایپ گروپس میں بھی اکثر اس کا مزیدار تذکرہ ہوتا رہتا ہے اور اس سائیکل کے ساتھ کھینچی گئی میری یادگار تصویر شیئر ہوتی رہتی ہے۔ اُس وقت اس سائیکل کا مذاق اڑنے پر میں شرمندہ ہوا کرتا تھا لیکن آج اس کا ذکر ہر جگہ فخریہ انداز میں جاری ہے۔
سائیکل چلانے کے اس شوق کو ظاہر ہے کہ بالآخر موٹر سائیکل ہی پر منتج ہونا تھا۔ چنانچہ پہلے تودوستوں کے اباؤں اور بڑے بھائیوں کی موٹر سائیکلوں پر ٹرائیاں کیں،بلکہ 1985ءمیں ایک بار اپنے دوست فاخر کی موٹر سائیکل کو میں پیپلز چورنگی سے راشد منہاس روڈ جانے والی ویران سڑک پر بغیر لائسنس دوڑا رہا تھا کہ خدا جانے کہاں سے دو پولیس والے نمودار ہو گئے اور ہمیں پکڑ لیا۔ بڑی مشکل سے چالیس روپے کی ( خطیر) رقم دے کر جان چھوٹی۔ وہ میری زندگی کی پہلی رشوت تھی۔ 1989ءمیں آخر کار اپنی موٹر سائیکل بھی خرید لی۔ یہ کالے رنگ کی ایک پرانی، مگر کم چلی ہوئی ٹو اسٹروک Suzuki 80 موٹر سائیکل تھی جو ایک کلاس فیلو نے کمال مہربانی سے مجھے صرف تین ہزار روپے میں دے دی۔ پھر اس کے بعد رفتہ رفتہ ہنڈا سیونٹی، سی ڈی سیونٹی اور ہنڈا وَن ٹو فائیو سے ہوتا ہوا 1995ءمیں اپنی پہلی کار سوزوکی ایف ایکس تک پہنچ گیا۔