سول سپریمسی تو ہر پاکستانی کا خواب ہے۔۔ چاہے کچھ بھی کہیں یہ خواب تو باقی رہے گا ہی ۔۔نظام کے تضادات اپنی جگہ ۔۔ ہمارے ہاں حقیقت یہ ہے کہ سول ہو یا فوجی . معذرت کے ساتھ ۔۔ہوشمند قیادت دونوں طرف نہیں ہے۔۔ اگر فوجی ملک میں دودھ و شھد کی نہریں بہا دیں تو ہم انہیں بھی قبول کر سکتے ہیں۔۔۔لیکن گذشتہ 70 سال میں ہم نے انہیں خوب آزما لیا ہے۔
جس قسم کے بندر وہ سامنے لاتے ہیں (بھٹو کو بندر نہیں کہوں گا لیکن انکے ہاتھ کا تراشیدہ پتھر کا صنم اب تک نسلوں سے بھگوان بنا ہے ) ۔۔اب نواز شریف بھی چھوٹا بھگوان بن چکا ہے اور عمران شاید بھگوانیت سے اترنے کے قریب ہے ( وہ بھی ایک مرتبہ سول سپریمیسی کا نعرہ ضرور لگائے گا)۔
لے پالکوں کی فہرست ذوالفقار علی بھٹو، سے لیکر محمد خان جونیجو ، نوازشریف اور عمران خان (ان میں محمد خان جونیجو اور ظفراللہ جمالی ہی خاموشی سے گھر چلے گئے) سب انکی مردم شناسی اور ملک چلانے کی صلاحیت پر سوال کھڑے کر چکے ہیں ۔ آخر انکی پرورش میں کیا خامی ہے کہ انکے پالتو آخر میں ناخلف کیوں بن جاتے ہیں؟
یاد رہے ایم کیو ایم بھی انکے حرم سرا کی لونڈی رہی ہے ۔لونڈیوں کی بھی مجبوری وہ بیچاری اپنی مرضی کی بجائے آقا کی نظر انتخاب و اشارے کی محتاج، جب چاہیں جسے چاہے تحفہ میں دے دیں، یہی حال انکا رہا کبھی مشرف کی بانہوں میں جھولے، کبھی نواز شریف، بینظیر و زرادری سے آنکھ مٹکّا، آج کی عمران حکومت سےہنی مون ۔۔ کسے معلوم کل کہاں ۔
درحقیقت اقتدار کے اس کھیل میں اصل کھلاڑی وردی پوش ۔۔ اور انکے معاون ان چیف عدالتی “مقدس بیل” جو ہمیشہ نظریہ ضرورت یا نظریہ نوکری کی ڈہال فراہم کرتے رہے ۔سیاستدان تو بطور جونئیر پارٹنر ہیں ۔۔۔ اس لئے انہیں پارلیمانی احتساب سے زیادہ دونوں “مقدسین” کو خوش رکھنے کی فکر کرنی پڑتی ہے۔
اس مرتبہ یہ عقلمندی کی گئی ہے کہ موجودہ ہائی بریڈ سسٹم میں حکومت انکی اور گالیوں کے لئے بندر ۔۔۔ لیکن اب پردہ اتنا مہین ہو چکا ہے کہ بندر کی شکل میں بھی وہی نظر آتے ہیں۔ نتیجہ خود کو بری الذّمہ کرنے کی یہ نیم دلانا کوشش بھی ناکام سی لگتی ہے۔
نظام انصاف تو کیا یہ پورا ملک یرغمال ہے مافیاؤں و اشرافیہ کے ہاتھوں میں اعلی عدلیہ، فوج و سیاسیہ ۔ سب اپنے اپنے طور پر اقتدار کی بہتی گنگا میں اپنا حصہ بٹورنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ لاھور میں ہائی کورٹ ججز کی تعیناتی مخصوص چیمبرز سے ہوتی ہے۔ ممکن ہے یہی حال دیگر عدالتوں کا بھی ہو۔۔یہی مختلف گروپوں کے منتخب کردہ ہائی کورٹ جج سُپریم کورٹ پہنچتے ہیں اور بعد میں چیف جسٹس بھی بن جاتے ہیں۔
جسٹس فائز عیسی کے کیس کو دیکھا جائے تو وہ اتنے معصوم نہیں ہیں لیکن یہاں مقدمہ انکی معصومیت یا مجرم ہونے پر نہیں بلکہ انکے بعض فیصلے “مقدسین” کو پسند نہیں آئے اور سارا کھیل انہیں آئندہ چیف جسٹس بننے سے روکنے کا ہے۔ورنہ اس سے بڑے بڑے “معاملات “ برداشت کرلیے گئے۔
نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
ہمیں ضرورت ہے تھُوڑے سے عوامی شعور کی جو اس پورے کھیل بدل سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے مسلسل انتخابات کے نتیجے میں شروع کی سطح فطری طور پر بلند ہونی ہی ہے۔
ہمارا انٹیلیجینسیا ہو یا مذہبی طبقہ یہ تمام عوام کے سیاسی شعور کو اپنی اپنی افیم کے نشے میں مبتلا کرنے کی پوری کوششیں کررہے ہیں۔چاہے ن لیگی ہوں، انصافی یا کسی دینی و فوجی جماعت کے عاشقین ۔ جدھر دیکھوں کنویں کے مینڈک ہی نظر آتے ہیں۔لیکن زندگی کے حقائق نے سارے نشے ہرن کردیتے ہیں۔
مجھے بعض نام نہاد تعلیم یافتہ لوگوں سے بات کرکے حیرت ہوتی ہے اپنے شعبوں کے اعلی ترین تعلیم یافتہ سیاسی معاملات کے بارے میں مکمل نا خواندہ و ناسمجھ ۔۔ساری تمنّا اپنے بادشاہ سلامت کو برسراقتدار دیکھنے کی ہے۔ اور بس۔۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ چاہے جماعتی یا گروہی وفاداری یا کوئی اور وجہ اس وقت عدلیہ بھی مکمل طور پر گردن جھکانے کو تیار نہیں۔ اس کے نتیجے میں “اُنہیں” بھی کچھ کچھ نہ تپش محسوس ہونے ہی لگے ہیں۔۔ جو بھی ہے یہ ملک و قوم کے لیے بہتر ہی ہوگا۔ یہ اختلافات ادارہ جاتی آزادی کی طرف ایک ابتدائی قدم ہی سہی پر بہتری کی طرف ابتدائی قدم ضرور ہے۔ پر ہنوز دلی دور است۔
نہ جانے کیوں مجھے بندوق و ترازو اتحاد کی اس شکست وریخت سے مستقبل کے لئے بہتر اُمیدیں نظر آرہی ہیں۔ سیاستدان اس مثلث کا آخری اور کمزور ترین مہرہ ہے۔ اسے اس مثلث پر اعتراض نہیں بس ساری جدوجہد سینئر پارٹنر بننے کی ہے۔
ففتھ جنریشن وار کی باتیں تو بہت کی جارہی ہیں لیکن کوئی یہ بتانے کے لیے تیار نہیں ہے کہ موجودہ ففتھ جنریشن وار کا اصل نشانہ عوام ہیں، پر حسن بن صباح کی جنت کچھ دیر کے لئے تو خوش کُن خواب دے سکتی ہے لیکن عوام کی بھوک، پیاس اور بنیادی ضرورتیں پوری نہیں کر سکتی، جھوٹ کی نیّا ڈوبنی ہی ہے۔
میڈیا (شوشل و الیکٹرونکس) پر مختلف جماعتوں یا گروہوں کے گوئیبلز سمجھتے ہیں کہ ورچوئیل جنت اور دودھ شھد کی جنتیں دکھا کر لوگوں کو ہمیشہ احمق بنا سکتے ہیں ۔۔ پر۔۔۔
You can fool all the people some of the time, and some of the people all the time, but you cannot fool all the people all the time.
Abraham Lincoln