ADVERTISEMENT
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد، داماد، چوتھے خلیفہ راشد بابُ العلم سیدنا حضرت علی المرتضٰیؓ کے فضائل و مناقب اور کارناموں سے تاریخ کے اوراق روشن ہیں ۔
وہ 13 رجب کو ہجرت سے 23 سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور 19 رمضان المبارک کو کوفہ میں ایک شقی القلب خارجی ابن ملجم ملعون نے مسجد میں ان پر قاتلانہ حملہ کیا، وہ دو دن بعد 21 رمضان کو شہید ہوگئے ۔
حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تم میری طرف سے اس مرتبے پر ہو، جس مرتبے پر حضرت ہارون علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے تھے ،مگر بات یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ (بخاری و مسلم)
وہ اللہ اور رسولؐ کے سب سے زیادہ محبوب ہیں یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علیؓ کو نفسِ رسول کا خطاب ملا۔
جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ؐ نے اپنا دنیا وآخرت میں بھائی قرار دیا۔
آخر میں غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علیؓ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بلند کیا اور یہ اعلان فرمایا کہ جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کے علی بھی مولا ہیں۔ اے اللہ جو علیؓ کو دوست رکھے تو بھی اسے دوست رکھ اور جو ان سے دشمنی رکھے تو بھی اس سے دشمنی رکھ ۔
آپؓ کا نام علی،لقب حیدر و مرتضیٰ، کنیت ابو الحسن اور ابو تراب ہے ۔
سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ بے پناہ خوبیوں کے مالک تھے۔ عبادت و ریاضت کے آثار بھی چہرے پر موجود تھے،چہرے پر مسکراہٹ اور پیشانی پر سجدے کے نشان… معمولی لباس زیب بدن فرماتے، آپؓ کا عبا اور عمامہ بھی سادہ تھے، گفتگو علم و حکمت اور دانائی سے بھرپور ہوتی…
بچپن سے نہ صرف حضور ﷺ کے ساتھ رہے، بلکہ آپ ﷺ ہی کی آغوشِ محبت میں پرورش پائی،آپ ﷺ نے ان کے ساتھ بالکل فرزند کی طرح معاملہ کیا اور اپنی دامادی کا شرف بھی عطا فرمایا،حضور ﷺ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی خاتونِ جنت سیدہ حضرت فاطمۃ الزہراءؓکے ساتھ آپؓ کا نکاح ہوا ۔
خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علی المرتضٰیؓ میدانِ جنگ میں تلوار کے دھنی اور مسجد میں زاہدِ شب بیدار تھے،مفتی و قاضی اور علم و عرفان کے سمندر تھے، عزم و حوصلہ میں ضرب المثل،خطابت و ذہانت میں بےمثل،
فضیلتیں بے شمار، سخی و فیاض، دوسروں کا دکھ بانٹنے والے، عابد و پرہیز گار، مجاہد و جاںباز ایسے تھے کہ نہ دنیا کو ترک کیا ،نہ آخرت سے کنارہ کشی فرمائی، ان سب کے باوجود نہایت سادہ زندگی گزارتے ، نمک، کھجور، دودھ ،گوشت سے رغبت تھی، غلاموں کو آزاد کرتے،دور خلافت میں بازاروں کا چکر لگا کر قیمتوں کی نگرانی فرماتے، گداگری سے لوگوں کو روکتے تھے، جب نماز کا وقت آتا تو آپؓ کے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا اور چہرے پر زردی چھا جاتی، کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا :’’اس امانت کی ادائیگی کا وقت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر اتارا تو وہ اس بوجھ کو اٹھانے سے عاجز ہو گئے۔‘‘
آپؓ میں عجز و انکساری نمایاں تھی،اپنے عہدِ خلافت میں بازاروں میں تشریف لے جاتے ،وہاں جو لوگ راستہ بھولے ہوئے ہوتے انہیں راستہ بتاتے، بوجھ اٹھانے والوں کی مدد کرتے، تقویٰ اور خشیت الٰہی آپؓ میں بہت زیادہ تھی ۔
ہجرت کی شب حضور ﷺ کے بستر مبارک پر آرام فرما ہوئے،اور آپؓ نے آخری وقت میں حضور ﷺ کی تیمارداری کے فرائض انجام دیے اور آپؓ کو ’’غُسلِ نبوی‘‘کی سعادت بھی نصیب ہوئی…
آپؓ ’’عشرہ مبشرہ‘‘ جیسے خوش نصیب صحابہ کرامؓ میں بھی شامل ہیں، جنہیں حضور ﷺ نے دنیا میں ہی جنت کی بشارت و خوش خبری دی اور خلافتِ راشدہؓ کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے، آپؓ کو بچپن میں قبولِ اسلام کی سعادت نصیب ہوئی اور بچوں میں سے سب سے پہلے آپؓ ہی دولتِ ایمان سے منور ہوئے، آپؓ کو ’’السابقون الاولون‘‘ میں بھی خاص مقام اور درجہ حاصل ہے۔
آپؓ ’’بیعتِ رضوان‘‘ میں شریک ہوئے اور ’’اصحابُ الشجرہؓ‘‘ کی جماعت میں شامل ہوئے جن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں راضی ہونے اور جنت کی بشارت و خوشخبری دی، آپؓ ’’اصحابِ بدرؓ‘‘ میں سے بھی ہیں جن کی تمام خطائیں اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیں،مکی زندگی میں حضور ﷺ کے ساتھ ہر قسم کے مصائب و مشکلات کو جھیلتے رہے… حضور ﷺ نے آپؓ کو اپنا ’’مواخاتی بھائی‘‘ بنایا اور حضور ﷺ نے آپ کو اپنے ساتھ وہی نسبت دی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت ہارون علیہ السلام سے تھی۔خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ تین ماہ کم پانچ سال تک تختِ خلافت پر متمکن رہنے کے بعد عبد الرحمن بن ملجم خارجی کے ہاتھوں زخمی ہونے کے بعد 21رمضان المبارک کوجامِ شہادت نوش فرما کر شہادت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہو ئے۔