پاکستان کی جدید سیاسی ثقافتی میں ندیم افضل چن قدیم روایتی وضع داری کی سیاست کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی کے منصب سے مستعفی ہو کر انھوں نے اپنے مزاج کی اس خصوصیت کو ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ سیاسی بندوبست میں ان کا استعفا کیا معنی رکھتا ہے؟
اس سوال کا ایک جواب تو بالکل سامنے ہے کہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ حکومت اور نظام جس طرح چل رہا ہے، اسی طرح چلتا رہے گا کیونکہ افراد کے آنے جانے سے ایک بڑے سیاسی ڈھانچے کا، خاص طور پر اگر وہ ہائیبرڈ بھی ہو، کچھ نہیں بگڑتا۔ یہ حقائق اپنی جگہ لیکن اس طرح کے واقعات سے کچھ اشارے ضرور ملتے ہیں جنھیں سمجھنے کے لیے گزشتہ ڈھائی برس کی تاریخ کو پیش نظر رکھ کر بھی نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں اور صرف ان واقعات سے بھی یہ نتیجہ کشید کیا جاسکتا ہے جو فوری طور پر اس استعفے کی وجہ بنے۔
عمران خان نے بدھ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں واضح کر دیا کہ کسی کو کھلے عام اختلاف کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ ندیم افضل چن کے استعفے کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کیونکہ عمران خان کی طرف سے تاخیر سے کوئٹہ جانے کے فیصلے سے انھیں اختلاف تھا اور ندیم افضل چن ایک ایسے سیاسی کارکن ہیں جو اپنے دل کی بات کبھی نہیں چھپاتے اور ضمیر کے مطابق اس کا اظہار کھل کر دیتے ہیں۔
پاکستان کے موجودہ ہائبرڈ سیاسی کلچر میں ظاہر ہے کہ اس کی گنجائش نہیں جس کا اظہار عمران خان نے دوٹوک انداز میں کر دیا ہے۔
اس قسم کا سیاسی رویہ سیاسی جماعتوں اور سماج کے سیاسی ماحول میں گھٹن پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے جس کے آثار دیکھنے کے لیے کسی غیر معمولی سیاسی بصیرت کی ضرورت نہیں، سب کچھ واضح ہے۔ ایسے ماحول سے حزب اختلاف متاثر ہوتی ہے اور وہ یقیناً اس کے خلاف آواز اٹھاتی ہے اور احتجاج بھی کرتی ہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے طرز عمل کا سب سے زیادہ منفی اثر خود حزب اقتدار پر پڑتا ہے جو اندر ہی اندر سے کمزور ہوتی چلی جاتی ہے اور کسی آزمائش کے موقع پر اس کی کمزوری بالکل عیاں ہو جاتی ہے۔ ایسے ہی واقعات ہوتے ہیں جو سیاسی سانحات کی راہ ہموار کرتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف اپنی چوٹی سے اس عارضے کا شکار ہو گئی ہے۔